(آیت 93،92) ➊ ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا …: مغرب و مشرق کے سفر کے بعد ذوالقرنین کا یہ تیسرا سفر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی جہت بیان نہیں فرمائی کہ وہ شمال ہے یا جنوب یا چاروں جہتوں کا کوئی کونا۔ معلوم ہوتا ہے اسے پوشیدہ رکھنے ہی میں اللہ کی حکمت ہے۔ چنانچہ مدت دراز سے لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی دو پہاڑوں کے درمیان اس جیسی بلندی والی یہ دیوار کسی نے نہیں دیکھی۔ دیوار چین یا داغستان میں دربند اور خوزامہ کے درمیان کسی زمانے میں پائی جانے والی دیوار یا کسی اور دیوار کی نہ یہ ہیئت ہے، نہ ان کے پار رہنے والوں میں کہیں یاجوج ماجوج کا وجود ہے۔
➋ بہت سے مفسرین نے ذوالقرنین کا یہ سفر شمال کی طرف قرار دیا ہے، کوئی اسے روس کا علاقہ قرار دیتا ہے، کوئی تاتاریوں کو یاجوج ماجوج کا مصداق ٹھہراتا ہے، جنھوں نے شمال کی جانب سے نکل کر دنیاکو تہ و بالا کر دیا تھا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ بعض انھیں مغل یا ترک قرار دیتے ہیں، مگر سب بلادلیل اندھیرے میں پتھر پھینکتے چلے جاتے ہیں۔ بعض حضرات اپنے دعوے کے کسی جز کی دلیل کے طور پر بائبل سے کچھ نقل کرکے پورے دعوے کی دلیل کے فریضے سے سبکدوش ہو جاتے ہیں، حالانکہ موجودہ بائبل پر یقین ممکن ہی نہیں۔ ان حضرات کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ ذوالقرنین کی دیوار ختم ہو چکی اور اس کے پیچھے روکے ہوئے یاجوج ما جوج جو نکلنے تھے نکل چکے، حالانکہ قرآن و سنت دونوں سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت کی تفصیل کی ضرورت ہو تو وہ قرآن مجید کی کسی دوسری آیت ساتھ ملانے سے پوری ہو جاتی ہے، اگر پھر بھی ضرورت باقی رہے تو صحیح حدیث ملانے سے وہ بھی پوری ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں یاجوج ماجوج کے نکلنے کا ذکر ایک اور مقام پر بھی آتا ہے، فرمایا: « حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ (96) وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ »[ الأنبیاء: ۹۶، ۹۷ ]”یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور سچا وعدہ بالکل قریب آ جائے گا تو اچانک یہ ہو گا کہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی جنھوں نے کفر کیا۔ ہائے ہماری بربادی! بے شک ہم اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔“ سورۂ کہف اور سورۂ انبیاء دونوں کی آیات کو ملانے سے صاف واضح ہے کہ اس دیوار کے زمین کے برابر ہونے اور یاجوج ماجوج کے موجیں مارتے ہوئے نکلنے کا وقت ایک ہی ہے اور اس کے بعد نفخ صور اور قیامت بالکل قریب ہوں گی۔ اس کی مزید تفصیل صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی موجود ہے کہ یہ سب کچھ دجال کے نکلنے اور مسیح علیہ السلام کے زمین پر نازل ہونے کے بعد ہو گا۔ چنانچہ نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی لمبی حدیث میں دجال کے نکلنے، فتنہ و فساد پھیلانے، پھر مسیح علیہ السلام کے نازل ہو کر اسے قتل کرنے کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ علیہ السلام اسی طرح (مصروف) ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائے گا کہ میں نے اپنے کچھ ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، اس لیے میرے بندوں کو طور کی طرف لے جا کر محفوظ کر لو، تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبریہ جھیل پر پہنچیں گے تو اس میں جو بھی (پانی) ہے پی جائیں گے اور ان کے آخری لوگ گزریں گے اور کہیں گے کہ یہاں کبھی ضرور پانی رہا ہے۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی محصور رہیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک کے نزدیک بیل کا سر آج تمھارے نزدیک سو دینار (تین سو گرام سونے) سے بہتر ہو گا۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں کیڑے ڈال دے گا تو وہ سب ایک شخص کی موت کی طرح ہلاک ہو جائیں گے، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت جگہ بھی نہیں پائیں گے جسے ان کی سڑاند اور گندگی نے نہ بھر رکھا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھا کر وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ کوئی مکان یا خیمہ اس کے بغیر نہیں رہے گا۔ چنانچہ وہ بارش زمین کو دھو دے گی، یہاں تک کہ اسے آئینے کی طرح صاف کر دے گی۔ پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل اُگا اور اپنی برکت واپس لا تو ان دنوں ایک جماعت انار کا ایک حصہ کھائے گی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ والے جانوروں میں برکت دی جائے گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی لوگوں کی کئی جماعتوں کو کافی ہو گی اور دودھ والی گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہو گی اور دودھ والی بکری لوگوں کے ایک خاندان کو کافی ہو گی۔ تو وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک طیب ہوا بھیجے گا جو ان کی بغلوں کے نیچے اثر کرے گی اور ہر مومن اور ہر مسلم کی روح قبض کر لے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، جو گدھوں کی طرح ایک دوسرے سے جنسی ملاپ کریں گے تو ان پر قیامت قائم ہو گی۔“[ مسلم، الفتن، باب ذکر الدجال: ۲۹۳۷ ]
اس صحیح حدیث سے ذوالقرنین کی دیوار کا زمین کے برابر ہو چکا ہونا اور یاجوج ماجوج کا روسی، چینی یا تاتاری ہونا اور ان کے خروج کا واقع ہو چکا ہونا صاف غلط ثابت ہوتا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن مجید اور صحیح حدیث کے خلاف جو بات بھی ہے وہ باطل اور جھوٹ ہے، خواہ وہ بات کہنے والا کتنا بڑا ہو اور خواہ وہ بائبل کی کسی کتاب میں موجود ہو، کیونکہ بائبل کے محفوظ نہ رہنے اور اس میں اضافہ اور تبدیلی کی شہادت قرآن مجید میں کئی جگہ موجود ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۳)، انعام (۹۱)، بقرہ (۷۹) اور آل عمران (۷۸) اس کے مقابلے میں قرآن و سنت کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ دیکھیے سورۂ حجر (۹)، قیامہ (۱۶، ۱۷)، حم السجدہ (۴۲) اور نجم (۳، ۴) بلکہ اس میں کئی ایسی عبارتیں ہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی انھیں عام مجمع میں پڑھنے کی جرأت نہیں کر سکتا، مثلاً لوط، داؤد اور سلیمان علیھم السلام پر تہمتوں کے طوفان والی عبارتیں۔ اور اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ اہل کتاب کی کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو وہ جھوٹ ہے اور اگر نہ خلاف ہو نہ موافق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں نہ سچا کہو نہ جھوٹا۔ زیر تفسیر آیات کے بارے میں اسرائیلی روایات قرآن مجید اور صحیح احادیث کے خلاف ہیں، اس لیے بے بنیاد اور باطل ہیں۔
➌ یاجوج اور ماجوج عجمی نام ہیں، اس لیے عجمہ اور تانیث (مجوس کی طرح قبیلہ ہونے) کی وجہ سے غیر منصرف ہیں۔ اگر انھیں عربی مانا جائے تو یاجوج بروزن ”يَفْعُوْلٌ“ مثلاً ”يَرْبُوْعٌ“ اور ماجوج بروزن ”مَفْعُوْلٌ“ مثلاً ”مَعْقُوْلٌ“ ہو گا اور ان کا ماخذ ” اَجَّ يَؤُجُّ “ ہو گا۔ ”اَجَّ الظَّلِيْمُ“ کا معنی نر شتر مرغ تیز دوڑا اور ”اَجَّتِ النَّارُ“ آگ بھڑک اٹھی۔ غرض یاجوج اور ماجوج کا اشتقاق ایک ہی مادے سے ہے اور اس کے مفہوم میں تیزی اور اشتعال شامل ہے اور یہ لفظ معرفہ اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہیں۔ (قاسمی)
➍ یاجوج اور ماجوج آدم علیہ السلام ہی کی اولاد ہیں، جیسا کہ صحیحین میں ہے: [ يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ يَا آدَمُ! فَيَقُوْلُ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِيْ يَدَيْكَ قَالَ يَقُوْلُ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ، قَالَ وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ، قَالَ فَذَاكَ حِيْنَ يَشِيْبُ الصَّغِيْرُ « وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَي النَّاسَ بِسُكٰرٰي وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ » قَالَ فَاشْتَدَّ ذٰلِكَ عَلَيْهِمْ قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! أَيُّنَا ذَاكَ الرَّجُلُ؟ فَقَالَ أَبْشِرُوْا فَإِنَّ مِنْ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ أَلْفٌ، وَمِنْكُمْ رَجُلٌ ][ مسلم، الإیمان، باب قولہ: یقول اللّٰہ لآدم…: ۲۲۲۔ بخاري: ۶۵۳۰ ]”اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ”اے آدم!“ وہ عرض کریں گے: ”لبیک و سعدیک اور ہر خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔“ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ”آگ والی جماعت کو نکالو۔“ وہ عرض کریں گے: ”اور آگ والی جماعت کیا ہے؟“ فرمائیں گے: ”ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو یہ وہ وقت ہو گا کہ بچہ بوڑھا ہو جائے گا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہر گز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔“ راوی نے کہا، تو یہ بات ان پر بہت شاق گزری، انھوں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! ہم میں وہ ایک آدمی کون ہو گا؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں سے ایک آدمی ہو گا۔“ بعض مفسرین نے یاجوج ماجوج کی شکل و صورت، قد کے لمبے اور چھوٹے ہونے اور ان کے کانوں کے متعلق عجیب و غریب اقوال و روایات لکھی ہیں جن میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ (ابن کثیر)
➎ اس حقیقت پر بعض کم فہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یورپی اقوام نے زمین کا ہر کونا چھان مارا ہے مگر انھیں نہ کہیں یاجوج ماجوج نظر آتے ہیں نہ پہاڑوں جیسی بلند لوہے اور تانبے کی کوئی دیوار نظر آتی ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے مخفی رکھنا چاہے کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ بنی اسرائیل میدان تیہ میں چالیس سال تک چند میل کے دائرے میں گھومتے رہے، نہ وہ اس دائرے سے نکل سکے اور نہ کسی اور کو ان کا پتا چل سکا، ورنہ وہ انھیں نکلنے کا راستہ بتا کر وہاں سے نکال لیتا۔ ایمان ہو تو اس دیوار، یاجوج ماجوج، نزول مسیح، دجال، دا بۃ الارض سب پر یقین آ جاتا ہے اور اگر ایمان نہ ہو تو انسان ”ایک جمع ایک، جمع ایک، برابر تین“ کے بجائے ”برابر ایک“ جیسی صریح خلاف عقل بات پر اڑ جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے رازوں تک اپنی نا رسائی کو تسلیم نہیں کرتا۔