(آیت 91) ➊ كَذٰلِكَ وَ قَدْ اَحَطْنَا …: یعنی اہلِ مشرق سے اس کا سلوک بھی اہلِ مغرب جیسا تھا، یا مطلب یہ ہے کہ کوئی اس کے مغرب و مشرق اور اس کے درمیان تمام علاقوں کے پامال کرنے کو ناممکن نہ سمجھے، یقینا ایسے ہی ہوا اور اس مقصد کے لیے اس نے جو افواج اور سازو سامان مہیا کیا اور اپنا عیش و آرام ترک کرکے مسلسل سفر اور جنگوں کی جو تکالیف برداشت کیں اس کی پوری خبر ہم ہی کو ہے، کسی دوسرے کو کیا خبر؟
➋ ذوالقرنین کی زندگی سے جو سبق حاصل ہوتے ہیں ان میں سے پہلا سبق یہ ہے کہ اقتدار حاصل ہوتے ہی بلند ہمت مسلم حکمران نو عمری ہی میں تمام دنیا کو فتح کرنے کا عزم کر لیتے ہیں، کیونکہ ذوالقرنین کے اتنی بے پناہ افواج کو لے کر اتنے طویل اور دشوار گزار سفر اور پیش آنے والے معرکوں کے لیے طویل عرصے کی بھی ضرورت تھی۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ اگرچہ شاہی محلات، طاؤس و رباب، قالین و کمخواب، حسیناؤں اور حاشیہ نشینوں کے جھرمٹ میں زندگی گزارنے میں بھی لذت اور لطف ہے، مگر گھوڑے کی پشت پر پہاڑوں، صحراؤں، جنگلوں اور دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے اور زخم کھانے کے بعد فتح میں جو سرور اور اسلام کو سربلند کرنے میں جو لذت ہے عیش پرستی کی لذت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں۔
➌ اقتدار حاصل ہونے کے بعد ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کا مشن بھی مسلسل جہاد کے ذریعے سے مشرق سے مغرب تک اسلام پھیلانا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک تمام دنیا کے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا جب تک وہ اسلام قبول نہ کریں، یا جزیہ دے کر محکوم و مقہور نہ بن جائیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام مشارق و مغارب دکھا دیے اور بتا دیا کہ آپ کی امت کی سلطنت یہاں تک پہنچے گی۔ [ ابن ماجہ، الفتن، باب ما یکون من الفتن: ۳۹۵۲ ] اور فی الواقع چند ہی سال میں مشرق کے آخر تک قتیبہ بن مسلم رحمہ اللہ پہنچ چکے تھے اور مغرب کے آخر تک عقبہ بن نافع رحمہ اللہ۔ جنوب و شمال کی طرف جو علاقے رہ گئے ان کے متعلق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لاَ يَبْقٰی عَلٰی ظَهْرِ الْأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللّٰهُ كَلِمَةَ الْإِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِيْزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِيْلٍ إِمَّا يُعِزُّهُمُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا أَوْ يُذِلُّهُمْ فَيَدِيْنُوْنَ لَهَا ][ مسند أحمد: 4/6، ح: ۲۳۸۷۶، عن المقداد و عائشۃ علیھا السلام ]”زمین کی پشت پر اینٹوں یا بالوں کا بنا ہوا کوئی گھر (یا خیمہ) باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت دے گا اور انھیں یہ کلمہ پڑھنے والوں میں داخل کر دے گا یا انھیں ذلیل کرے گا اور وہ اس کے محکوم بن جائیں گے۔“ اب دیکھیے وہ محمدی ذوالقرنین کب اٹھتا ہے جو یہ کارنامہ سرانجام دے گا؟ بہرحال ہم سب کو کسی ذوالقرنین کا انتظار کرنے کے بجائے جتنا ہو سکے خود ہی اسلام کی سربلندی اور کفر کو مٹانے کے لیے جہاد کی ضروریات مہیا کرنے اور دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے مسلسل جہاد میں مصروف رہنا لازم ہے، کیا خبر اللہ کس کو یہ سعادت بخش دے!! یہی ذوالقرنین کا مشن اور عمل تھا اور یہی ہمارے پیارے پیغمبر اور آپ کے خلفاء کا مشن اور عمل تھا اور یہی کام ہمارے ذمے ہے۔
➍ جیسا کہ شروع سورت کی تفسیر میں گزرا کہ اس سورت کی ابتدائی یا آخری آیات کا حفظ کرنا دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے، جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ اِلٰی قِيَامِ السَّاعَةِ خَلْقٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ ][ مسلم، الفتن، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال: ۲۹۴۶، عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ]”آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کوئی مخلوق دجال سے بڑی نہیں ہوئی۔“ پھر جو شخص اس سے محفوظ رہا وہ دوسرے فتنوں سے تو بالاولیٰ محفوظ رہے گا۔ اصحابِ کہف اور ذوالقرنین دونوں کے قصوں کا خلاصہ یہ ہے کہ فتنے میں مبتلا کرنے والے کفار کے ساتھ مومن گزارا نہیں کر سکتا۔ اگر اس کے پاس اقتدار نہیں تو وہ ایمان بچانے کے لیے غاروں اور پہاڑوں میں چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی جان و ایمان دونوں کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر صاحب اقتدار ہے تو پوری عمر کفر اور کفار کی کمر توڑنے میں مصروف رہتا ہے، تاکہ وہ غالب آکر اس کے ایمان کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف اس سورت یا اس کی چند آیات کا پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے تقاضوں پر عمل بھی فتنوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ سے دوستی گانٹھ لے، اپنی ایمانی غیرت کو تھپکیاں دے کر سلا دے، کفر و شرک پر زبان بند رکھ کر کافر معاشرے میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا رہے اور ہر جمعہ کو سورۂ کہف کی تلاوت کر لیا کرے، بلکہ حفظ آیات میں ان پر عمل بھی شامل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ کہف (۱۰۲ تا ۱۰۴)۔