تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 77) اسْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا: بعض صوفیوں نے اس آیت سے گدائی کے مستحب ہونے کا استدلال کیا ہے اور اسے باقاعدہ سالک کے آداب میں شمار کیا ہے، اس لیے عموماً صوفی لوگ روزی کمانے کے بجائے گدائی کو اور دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کو کمال ولایت و توکل سمجھتے ہیں اور اس کام میں مہارت رکھتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی جہالت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا زَالَ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِيْ وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ ] [ بخاري، الزکوٰۃ، باب من سأل تکثرًا: ۱۴۷۴۔ مسلم: 1040/104 ] آدمی لوگو ں سے مانگتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہیں ہو گی۔ ان دونوں انبیاء نے اپنے حق کا سوال کیا ہے جو بطور ضیافت بستی والوں پر فرض تھا۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: [ إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ لَا يَقْرُوْنَنَا، فَمَا تَرَی فِيْهِ؟ فَقَالَ لَنَا إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأُمِرَ لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِيْ لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوْا، فَإِنْ لَّمْ يَفْعَلُوْا فَخُذُوْا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ ] [ بخاري، المظالم، باب قصاص المظلوم إذا وجد مال ظالمہ: ۲۴۶۱۔ مسلم: ۱۷۲۷ ] آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم کسی قوم کے پاس جاتے ہیں اور وہ ہماری ضیافت نہیں کرتے، تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اگر تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور تمھارے لیے ان چیزوں کا حکم دیا جائے جو مہمان کے لیے چاہییں تو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا حق لے لو۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.