جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی، ان کی موجودگی میں قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کہ ” کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور اپنی والدہ کی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے؟ “ اس سوال سے مردود نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت «هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ»[5-المائدہ:119] سے استدلال کرتے ہیں۔
سدی رحمة الله فرماتے ہیں یہ خطاب اور جواب دینا ہی کافی ہے، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا، اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کلام لفظ ماضی کے ساتھ ہے، دوسری دلیل آیت «إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» [5-المائدة:118] ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں ٹھیک نہیں۔
پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت کے دن ہونے والے ہیں ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے ساتھ موجود ہے، اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع اور ثبوت بخوبی ثابت ہو جائے۔
دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود جناب مسیح علیہ السلام کا یہ ہے کہ ان سے اپنی برأت ظاہر کر دیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں، اسے شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع لازم نہیں جیسے کہ اسی جگہ اور آیتوں میں ہے، زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو قتادہ رحمة الله وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپٹ ہو۔
چنانچہ ایک مرفوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے، جسے حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ ابوعبداللہ مولی عمر بن عبدالعزیز رحمة الله کے حالات میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت اللہ کے سامنے بلوائے جائیں گے پھر عیسیٰ علیہ السلام بلوائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے احسان انہیں جتلائے گا جن کا وہ اقرار کریں گے فرمائے گا کہ «ا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ»[5-المائدہ:110] ” اے عیسیٰ علیہ السلام جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کئے، انہیں یاد کر “، پھر فرمائے گا ” تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہ سمجھنا “۔ آپ علیہ السلام اس کا بالکل انکار کریں گے، پھر نصرانیوں کو بلا کر ان سے دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں گے، ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس راہ پر ڈالا تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا۔ اسی لیے عیسیٰ علیہ السلام کے سارے بدن کے بال کھڑے ہو جائیں گے، جنہیں لے کر فرشتے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ عیسائیوں پر حجت قائم ہو جائے گی، اب ان کے سامنے صلیب کھڑی کی جائے گی اور انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1236/4:ضعیف]
جناب عیسیٰ علیہ السلام کے جواب کو دیکھئیے کہ کس قدر با ادب اور کامل ہے؟ دراصل یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے، آپ علیہ السلام کو اسی وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ آپ علیہ السلام فرمائیں گے کہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسی بات کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا، تجھ سے نہ میری کوئی بات پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ چھپا ہوا ہے، دلی راز تجھ پر ظاہر ہیں، ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ پر کھلی ہوئی ہیں غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے ۔
جس تبلیغ پر میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبلیغ کی تھی جو کچھ مجھ سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بلا کم و کاست میں نے ان سے کہہ دیا تھا۔ جس کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار ہے، جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیکھتا بھالتا تھا لیکن جب تو نے مجھے بلا لیا پھر تو، تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو تو ہر چیز پر شاہد ہے