(آیت 55)وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْۤا …: اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں کی تائید میں آیات موجود ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے واضح نشانیاں لانے کے باوجود لوگوں کو ایمان لانے اور استغفار سے روکا تو صرف اس بات نے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ لوگ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ان پر ہمارا عذاب اسی طریقے سے نہ آ جائے جس طرح پہلے لوگوں، مثلاً قوم نوح، عاد اور ثمود وغیرہ پر آیا، جس نے انھیں جڑ سے اکھیڑ دیا، یا قیامت کے دن کا عذاب ان کے سامنے نہ آ جائے، یعنی ان کی تقدیر ہی میں ایمان لانا نہیں ہے۔ یہ قضیہ ”مَانِعَةُ الْخَلْوِ“ ہے۔ یعنی ان دونوں چیزوں میں سے ایک ضرور ہو گی کہ اگر دنیا میں پہلے لوگوں جیسے عذاب سے بچے رہے تو قیامت کا عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے ضرور آئے گا اور دونوں جمع بھی ہو سکتے ہیں کہ دنیا میں پہلے لوگوں کی طرح عذاب بھی آئے گا اور آخرت میں بھی عذاب کو سامنے دیکھ لیں گے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بھی نہ ہو۔ اس معنی کی تائید میں فرمایا: «اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ (96) وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ» [ یونس: ۹۶، ۹۷ ]”بے شک وہ لوگ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی، وہ ایمان نہیں لائیں گے، خواہ ان کے پاس ہر نشانی آجائے، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔“ اس معنی کی مزید آیات کے لیے دیکھیے یونس (۱۰۱) اور مائدہ (۴۱)۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے ایمان لانے اور استغفار کرنے سے روکا تو صرف ان کے اس مطالبے نے کہ ان پر پہلے لوگوں جیسا جڑ سے اکھاڑ دینے والا عذاب آ جائے، یا قیامت کا عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے، یعنی وہ اپنی سرکشی کی وجہ سے اسی مطالبے پر ڈٹے رہے، نہ ایمان لائے نہ اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ اس مفہوم کی آیات بہت ہیں، مثلاً شعیب علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دے، اگر تو سچوں سے ہے۔ (شعراء: ۱۸۷) اسی طرح قومِ ہود کا مطالبہ (احقاف: ۲۲)، ثمود کا مطالبہ (اعراف: ۷۷)، قومِ لوط (عنکبوت: ۲۹)، قومِ نوح (ہود: ۳۲) اور مشرکینِ مکہ کا مطالبہ (انفال: ۳۲) آیت میں دونوں معنی کی گنجائش ہے اور دونوں درست ہیں۔