(آیت 45)وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا …: ” هَشِيْمًا “ یہ ”فَعِيْلٌ“ بمعنی ”مَفْعُوْلٌ“ ہے، یعنی چورا چورا کیا ہوا۔ ”تَذْرُوْهُ“”ذَرَا يَذْرُوْ“(ن) ہواؤں کا اڑانا۔ ” مُقْتَدِرًا “”قَدَرَ يَقْدِرُ“ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے، حروف زیادہ ہونے سے معنی زیادہ ہو گیا، یعنی پوری قدرت رکھنے والا۔ یہ دنیا کی بے ثباتی کی ایک اور مثال ہے، یعنی دنیا کی مثال اس پانی کی سی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتارا، اس کے ساتھ زمین سے پودے اگے، پھر اتنے گھنے ہوگئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہایت خوب صورت منظر پیش کرنے لگے، جسے دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے، پھر وہ کھیتی پک کر زرد ہو گئی، پھر ایسی خشک ہوئی کہ ٹوٹ پھوٹ کر چورا ہو گئی۔ اسی طرح آسمان سے روح اتری، زمین سے بننے والے بدن سے مل کر انسان بڑھنا شروع ہو گیا، بچپن کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے جوانی آ گئی، ماں باپ جوان اولاد کو دیکھ کر کھل اٹھے، پھر تھوڑی ہی مدت بعد بڑھاپا آ گیا۔ اب اس نے فنا ہونا ہی ہونا ہے، جس طرح پکی ہوئی فصل کو پانی دیا جائے یا کھاد، اسے ریزہ ریزہ ہونا ہی ہے، اسی طرح بوڑھے کو مقوی غذا دی جائے یا کشتے، اس نے قبر میں جا کر مٹی کے ذرات میں بدلنا ہی ہے۔ پھر کئی پودے اگتے ہی اکھاڑ لیے جاتے ہیں، کئی سرسبز پودے جوبن پر کاٹ لیے جاتے ہیں، پھر اگر کوئی حادثہ پیش نہ آئے تو پکنے پر کاٹ لیے جاتے ہیں، یا خود ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی بچپن میں، کوئی جوانی یا ادھیڑ عمر میں فوت ہو جاتے ہیں، اگر یہ مدت خیریت سے گزر جائے تو بڑھاپے کے بعد یہاں رہنے کا معاملہ ہر حال میں ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تمام مرحلوں کے درمیان ”فاء تعقیب“ رکھی، یعنی ” فَاخْتَلَطَ “ اور ” فَاَصْبَحَ “ یعنی یہ مرحلے ایک دوسرے کے پیچھے جلد از جلد آتے چلے جاتے ہیں۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے یونس (۲۴)، زمر (۲۱) اور حدید (۲۰)۔