(آیت 43)وَ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ …: ” مُنْتَصِرًا “ کا معنی انتقام لینے والا بھی ہے اور خود بچنے والا بھی، یعنی عذاب آیا تو اس کا کوئی گروہ نہ تھا جو اس کی مدد کرتے، سوائے اللہ کے اور نہ وہ خود بچنے والا تھا۔ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ کا ایک مطلب یہ ہے جو ترجمے میں گزرا۔ زمحشری اور کئی مفسرین نے یہی معنی کیا ہے، یعنی اس ”وقت اللہ کے سوا“ اسے کوئی بچانے والا نہ تھا، مگر اس کو وہ ناراض کر چکا تھا۔
” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ پھر ”اللہ کے مقابلے میں“ اس کا کوئی گروہ نہ تھا جو اس کی مدد کو پہنچتا…۔ یہ معنی بھی کئی مفسرین نے کیا ہے۔ کسی بھی کافر کو جب یہ معاملہ پیش آتا ہے تو وہ اس وقت ہر طرف سے ناامید اور مجبور ہو کر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، مگر تب وقت گزر چکا ہوتا ہے اور اس کا ایمان اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا، جیسا کہ فرعون غرق ہوتے وقت ایمان لے آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے یونس (۹۰ تا ۹۲) انبیاء علیہم السلام کے مخالفین نے اللہ کا عذاب دیکھا تو کہنے لگے، ہم اللہ اکیلے پر ایمان لے آئے۔ (دیکھیے مومن: ۸۴) اور قارون کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے بعینہ یہ الفاظ فرمائے جو زیر تفسیر قصے والے شخص کے متعلق فرمائے، فرمایا: «فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ» [ القصص: ۸۱ ]”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، پھر نہ اس کے لیے کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کرنے والوں میں سے تھا۔“ مگر ان میں سے کسی کے ایمان نے اسے فائدہ نہ دیا۔