(آیت 22) ➊ سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ …: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت اہل کتاب میں اور ان کے ذریعے سے مشرکین عرب میں اصحابِ کہف سے متعلق طرح طرح کی باتیں موجود تھیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس نہ تھیں۔
➋ اصحابِ کہف کے ناموں کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ناموں کی صراحت غالباً اسرائیلی کتب تواریخ سے ماخوذ ہے اور ان اسماء کے تلفظ میں بھی بہت اختلاف ہے، کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباری) پھر بعض لوگ ان ناموں کے خواص اور فائدے بیان کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لیے ان کو لکھتے ہیں جو کسی صورت بھی صحیح نہیں، بلکہ اگر ”یا“ حرف ندا کے ساتھ لکھے جائیں، یا ان ناموں میں نفع پہنچانے یا نقصان سے بچانے کی تاثیر کا عقیدہ رکھا جائے تو صاف شرک ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس بارے میں بعض روایات بھی گھڑ لی گئی ہیں جو ابن عباس اور دیگر اصحاب رضی اللہ عنھم کی طرف منسوب ہیں، مگر ان میں سے کوئی روایت بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما یا سلف صالحین سے ثابت نہیں۔ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان ناموں کے ساتھ علاج کی تردید کی ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب یہ تو جانتے تھے کہ کسی زمانے میں یہ واقعہ ہوا ہے، مگر وہ اس کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ اس لیے محض اٹکل سے اس کی تفصیلات بیان کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد کے متعلق ان کے دو قول ذکر فرما کر ان کی تردید فرمائی، البتہ تیسرے قول کا ذکر فرما کر کہ وہ سات تھے، اس کی تردید نہیں فرمائی، بلکہ فرمایا، کہہ دے میرا رب ان کی تعداد سے متعلق زیادہ جانتا ہے اور انھیں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر اس بحث کے بے فائدہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں سے سرسری بحث کے سوا کوئی بحث کریں، نہ ان کے متعلق ان میں سے کسی سے کچھ پوچھیں، کیونکہ ان کے پاس اس کا کچھ علم نہیں۔ اکثر اہل علم نے، جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں، آخری قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس بات میں مختلف اقوال ہوں اسے بیان کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام اقوال ذکر کیے جائیں اور صحیح قول کی طرف اشارہ کر دیا جائے اور بحث کا فائدہ بھی بیان کیا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تینوں باتیں بیان فرما دیں۔ (قاسمی ملخصاً)