(آیت 5) ➊ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ …: یعنی اللہ کی اولاد ہونے کی کوئی دلیل نہ ان کے پاس ہے اور نہ ان کے آباء کے پاس، کیونکہ علم وہ ہے جس کی کوئی دلیل ہو۔ ان کے باپ دادا نے کسی علم کے بغیر محض جہل سے یہ بات نکالی اور انھوں نے محض جہالت کی بنا پر ان کی تقلید کی۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے تقلید کے بارے میں کیا خوب کہا:
اَلْعِلْمُ قَالَ اللّٰهُ قَالَ رَسُوْلُهُ
مَا ذَاكَ وَالتَّقْلِيْدُ يَسْتَوِيَانِ
اِذْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ مُقَلِّدًا
لِلنَّاسِ وَالْأَعْمَي هُمَا سِيَّانِ
”علم وہ ہے جو اللہ نے فرمایا اور اس کے رسول نے فرمایا۔ یہ اور تقلید برابر نہیں ہیں، کیونکہ علماء کا اتفاق ہے کہ لوگوں کی تقلید کرنے والا اور اندھا دونوں برابر ہیں۔ “
➋ كَبُرَتْ كَلِمَةً …: ” كَبُرَتْ “ مذمت کے لیے فعل ماضی ہے، گویا افعال مدح و ذم کے قبیل سے ہے۔ ” كَبُرَتْ “ فعل ذم ہے، اس کا فاعل ”هِيَ“ محذوف ہے، ” كَلِمَةً “ تمیز ہے، یعنی یہ جو کچھ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے، یہ بطور کلمہ (یعنی منہ سے بولنے کے لحاظ سے) ہی بہت بڑی بات ہے، کجا یہ کہ اس کا عقیدہ رکھا جائے۔ اس میں کچھ تعجب کا اظہار بھی ہے کہ کتنی بڑی بات انھوں نے اپنے منہ سے نکال دی۔ دوسری جگہ فرمایا: «وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا (88) لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا (89) تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (90) اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا (91) وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا (92) اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا (93) لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّا (94) وَ كُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا»[ مریم: ۸۸ تا ۹۵ ]”اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔ بلاشبہ یقینا تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو۔ آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا، حالانکہ رحمان کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔ بلاشبہ یقینا اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے اور انھیں خوب اچھی طرح گن کر شمار کر رکھا ہے اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے پاس اکیلا آنے والا ہے۔“