اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ” رسولوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تمہاری امتوں نے تمہیں مانا یا نہیں؟ “۔
جیسے اور آیت میں ہے «فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ»[7-الأعراف:6] یعنی ” رسولوں سے بھی اور ان کی امتوں سے بھی یہ ضرور دریافت فرمائیں گے “۔
اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ» [15-الحجر:93-92] ” تیرے رب کی قسم ہم سب سے ان کے اعمال کا سوال ضرور ضرور کریں گے “۔ رسولوں کا یہ جواب کہ ” ہمیں مطلق علم نہیں “، اس دن کی ہول و دہشت کی وجہ سے ہو گا، گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ جواب بن نہ پڑے گا، یہ وہ وقت ہو گا کہ عقل جاتی رہے گی پھر دوسری منزل میں ہر نبی اپنی اپنی امت پر گواہی دے گا۔
ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سوال کی غرض یہ ہے کہ تمہاری امتوں نے تمہارے بعد کیا کیا عمل کئے اور کیا کیا نئی باتیں نکا لیں؟ تو وہ ان سے اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے، یہ معنی بھی درست ہو سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا علم نہیں جو اے جناب باری تیرے علم میں نہ ہو۔
حقیقتاً یہ قول بہت ہی درست ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلے میں بندے محض بے علم ہیں تقاضائے ادب اور طریقہ گفتگو یہی مناسب مقام ہے، گو انبیاء علیہم السلام جانتے تھے کہ کس کس نے ہماری نبوت کو ہمارے زمانے میں تسلیم کیا لیکن چونکہ وہ ظاہر کے دیکھنے والے تھے اور رب عالم باطن بین ہے اس لیے ان کا یہی جواب بالکل درست ہے کہ ہمیں حقیقی علم مطلقاً نہیں تیرے علم کی نسبت تو ہمارا علم محض لاعلمی ہے حقیقی عالم تو صرف ایک تو ہی ہے۔