(آیت 111) وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا …: یعنی ہر خوبی جس کی تعریف ہو سکتی ہے، خواہ وہ صفت جمال ہو یا جلال یا کمال، صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس کے سوا کسی اور میں کوئی خوبی ہے تو اسی کی عطا کر دہ ہے، اس لیے وہ بھی اسی کی خوبی ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس کے سوا کوئی خواہ کتنا ہی بڑا ہے یا تو اولاد کا محتاج ہے، کیونکہ اسے بوڑھا ہونا اور فوت ہونا ہے، اس لیے زندگی میں اسے مدد کے لیے اور مرنے کے بعد وارث کے طور پر اولاد کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، وہی سب کا وارث ہے، وہ اولاد کی محتاجی سے پاک ہے۔ پھر والد اور اولاد ایک جنس سے ہوتے ہیں، اگر اس کی اولاد ہو تو اس کا ” وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ“ ہونا باقی نہیں رہتا۔ پھر ایک جیسے دو یا کئی الٰہ ماننا پڑیں گے، جس کا نتیجہ سورۂ انبیاء (۲۲) میں مذکور ہے۔ ” لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا “ میں یہود و نصاریٰ کا رد ہو گیا جو عزیر یا مسیح علیھما السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب کا بھی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور اسلام کے پردے میں چھپے ہوئے ان لوگوں کا بھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو اللہ کے ذاتی نور کا ٹکڑا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں:
خدا کے نور سے پیدا ہوئے پانچوں تن
محمد است و علی، فاطمہ، حسن و حسین
یا پھر اللہ کے سوا جو بھی ہے وہ اکیلا ہر کام سرانجام نہیں دے سکتا، اس لیے بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اپنے ولی عہد یا وزیر و مشیر کو حکومت میں شریک کرنا پڑتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اکیلا ہی پوری کائنات کا ایسا بادشاہ ہے جسے کسی شریک کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اس کے سوا ہر ایک کی زندگی میں ایسا مرحلہ آتا ہے جب اسے اپنی کمزوری یا عاجزی کی وجہ سے کسی مددگار اور حمایتی کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ عزیز ہے، سب پر غالب ہے، نہ اسے کوئی کمزوری یا بے بسی لاحق ہوتی ہے، نہ کوئی ایسا ہے جو اس کی بے بسی اور عاجزی میں اس کا پشت پناہ بنے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی! اور اے ہر مخاطب! تو اللہ تعالیٰ کے ہر خوبی اور ہر تعریف کے مالک ہونے کا اعلان کر دے، کیونکہ اس میں یہ تینوں کمزوریاں نہیں ہیں اور اس کی بڑائی جتنی ہو سکتی ہے زیادہ سے زیادہ بیان کر۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت جامع آیت ہے، جس میں اللہ کی حمد، تسبیح، تہلیل اور تکبیر تمام چیزیں دلیل کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں۔