(آیت 105) ➊ وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ: یعنی اس میں جو بات بھی ہے سراسر حق ہے۔ ” وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ “ اور جیسے ہم نے اتارا ویسے ہی وہ اترا ہے، درمیان میں کسی کا دخل نہیں ہوا کہ وہ کوئی کمی بیشی یا تبدیلی کر سکے۔ وحیٔ الٰہی کی حفاظت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ جن کی آیات (۲۶ تا ۲۸) اور اس مفہوم کے قریب سورۂ انعام کی آیت (۱۱۵) موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر کرکے جو قرآن کا ذکر فرمایا تو اس سے مقصود کفار قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الٹی سیدھی فرمائشیں کرنے کے بجائے اسی قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
➋ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا: یعنی ہم نے آپ کو یہ قدرت دے کر نہیں بھیجا کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر دیں، بلکہ آپ کا کام صرف دعوت دینا، قبول کرنے والے کو خوش خبری دینا اور انکار کرنے والے کو جہنم سے ڈرانا ہے۔ دیکھیے سورۂ غاشیہ (۲۱، ۲۲)۔