(آیت 99) ➊ ”اَوَ لَمْ يَرَوْا “ کا معنی ”أَوَلَمْ يَعْلَمُوْا“ ہے، یعنی ”کیا انھیں معلوم نہیں؟“دیکھیے سورۂ فیل اور ابراہیم (۲۴) مطلب یہ کہ انھیں معلوم ہے۔ ” لَمْ “ کے اوپر ہمزہ استفہام برائے توبیخ آیا تو اثبات کا مفہوم پیدا ہو گیا، کیونکہ نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے۔
➋ اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ …: یہ ان کے قیامت کے انکار کا عقلی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا، وہ ان جیسوں کو بھی پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، کیونکہ زمین و آسمان کی پیدائش ان کی پیدائش سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ دیکھیے سورۂ یس(۸۱)، احقاف (۳۳)، مومن (۵۷) اور نازعات (۲۷)۔
➌ اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ:”ان جیسوں“ سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ ” مِثْلَهُمْ “ کا لفظ تحقیر کے لیے ہے، جیسے کہا جاتا ہے، تیرے جیسے ذلیل ہی ہوتے ہیں، تیرے جیسوں کی کیا مجال ہے؟ مطلب یہ کہ تمھاری کیا مجال ہے؟ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ جس نے آسمان و زمین پیدا کیے وہ اس بات پر قادر ہے کہ ان کی جگہ ان جیسے اور لوگ پیدا کر دے جو اسے ایک مانیں، اس قسم کے فاسد شبہات سے پاک ہوں اور قیامت برپا کرنے میں اس کی کمال حکمت کے قائل ہوں، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ» [ محمد: ۳۸ ]”اور اگر تم پھر جاؤ تو وہ تمھاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے۔“ دونوں معنی ہی درست ہیں۔
➍ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا …: ” جَعَلَ “ کا عطف ” قَادِرٌ “ پر ہے جو ”قَدَرَ“ کی طرح ہے، یعنی وہ ان جیسے لوگ پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس نے ان سب کے مرنے اور دوبارہ اٹھائے جانے کا وقت مقرر کر رکھا ہے، جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں، لہٰذا محض تاخیر کو دیکھ کر دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار سراسر حماقت ہے۔ دیکھیے سورۂ ہود (۱۰۳، ۱۰۴)۔