(آیت 73) ➊ وَ اِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ۠ عَنِ الَّذِيْۤ اَوْحَيْنَاۤ …:” وَ اِنْ كَادُوْا “ اصل میں ”وَاِنَّهُمْ كَادُوْا“ تھا، دلیل وہ لام ہے جو بعد میں آ رہا ہے۔ ”فَتَنَ يَفْتِنُ“(ض) سونے کو کھرا کھوٹا معلوم کرنے کے لیے آگ میں ڈالنا، آزمائش۔ ”فَتَنَهُ عَنْ رَأْيِهِ “ کسی کو کسی کی رائے سے ہٹانا۔ کفار مکہ خود تو راہ پر کیا آتے ان کی برابر یہ کوشش رہی کہ کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم خالص توحید پیش کرنے سے باز آ جائیں، یا ان احکام کا ایک حصہ چھوڑ دیں یا بدل دیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دیے جا رہے ہیں، یا قرآن سے وہ حصہ حذف کر دیں جس میں شرک اور بت پرستی کی مذمت ہے تو ہم ایمان لانے کے لیے تیار ہیں۔ آپ کو مقصد سے پھیرنے کے لیے کبھی فریب کاریوں سے، کبھی لالچ سے اور کبھی دھمکیوں سے انھوں نے بے شمار جتن کیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ انھیں صاف کہہ دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ بات نہیں لگا سکتا جو اس نے میری طرف وحی نہ کی ہو۔ ان کے تقاضے اور آپ کے جواب کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۱۵ تا ۱۷)۔
➋ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا: کیونکہ توحید کی دعوت سے پہلے وہ آپ سے دلی محبت رکھتے تھے، آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ اب آپ ان کی طرف مائل ہونے کے تھوڑے سے بھی قریب ہو جائیں تو وہ آپ سے پھر وہی دلی دوستی رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ خلیل وہ دوست جس کی دوستی دل کے اندر ہو، جیسا کہ فرمایا: «وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا» [ النساء: ۱۲۵ ]”اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔“