تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 69،68)اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ …: خَسْفٌ کا معنی زمین میں دھنسا دینا ہے۔ جَانِبَ الْبَرِّ خشکی کا کنارا، یہ اس لیے فرمایا کہ زمین میں پانی کا کنارا خشکی اور خشکی کا کنارا پانی ہے۔ حَاصِبًا سنگریزے اڑانے والی آندھی، یا وہ بادل جس سے اولے برسیں۔ قَاصِفًا ضَرَبَ سے اسم فاعل ہے، درختوں، کشتیوں اور ہر چیز کو توڑ دینے والی آندھی۔ تَبِيْعًا قرض یا انتقام کا مطالبہ کرنے والا جو پیچھا نہ چھوڑے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی نادانی اور کم عقلی بیان فرمائی ہے کہ تم جب خشکی پر پہنچ جاتے ہو تو اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے بے خوف ہو کر دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا ہو جاتے ہو، کیا تمھیں اس بات کا کوئی خوف نہیں آ رہا کہ تمھیں اللہ تعالیٰ پانی میں ڈبو سکتا ہے تو خشک زمین میں بھی دھنسا سکتا ہے؟ اس کا حکم ہو تو پانی کی طرح زمین تمھیں نگل لے، یا وہ پتھر اڑا کر لانے والی تند و تیز آندھی بھیج کر تمھیں ہلاک کر دے، پھر تمھیں کوئی مددگار نہیں ملے گا۔ یا تمھیں یہ بھی خوف نہیں رہا کہ تمھیں اللہ کی طرف سے پھر کبھی سمندری سفر پیش آ جائے اور وہ تمھاری ناشکری کی سزا کے لیے ہر چیز کو توڑ دینے والی طوفانی ہوا کے ذریعے سے تمھیں غرق کر دے؟ پھر تمھیں کوئی ایسی ہستی نہیں ملے گی جو اللہ تعالیٰ سے انتقام کا مطالبہ اور پیچھا کرے۔ معلوم ہوا کہ انسان کو کسی آزمائش سے نجات کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور دوبارہ گرفت سے بے پروا ہر گز نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ سراسر خسارے کی بات ہے، جیسا کہ فرمایا: «اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ» [ الأعراف: ۹۹ ] پھر کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو گئے ہیں، تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ ان آیات میں مذکور معنی اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر واضح فرمایا ہے، دیکھیے سبا (۹)، انعام (۶۵) اور سورۂ ملک (۱۶، ۱۷) ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهٖ تَبِيْعًا کی ہم معنی آیت سورۂ شمس (۱۴، ۱۵) میں دیکھیے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.