(آیت 67) وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ …: زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ نبوت کے کفار کی بت پرستی کے باوجود ان کی فطرت میں رکھی گئی توحید کا ذکر بطور دلیل ہو رہا ہے کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو پہاڑوں جیسی موجوں میں جہاز گھر جاتا ہے اور موت صاف نظر آنے لگتی ہے تو تم اپنے تمام خداؤں، داتاؤں، مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کو بھول کر اپنی فطرت میں رکھی ہوئی توحید کی وجہ سے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہو، پھر جب وہ تمھیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو، جیسے اپنے رب سے تمھاری کوئی آشنائی ہی نہ تھی اور پھر اپنے خود ساختہ خداؤں کو پکارنے لگتے ہو اور انھی کا احسان ماننے لگتے ہو۔ کس قدر احسان ناشناسی اور ناشکری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مشرک انسان ہمیشہ سے بے حد ناشکرا رہا ہے۔ ” الْاِنْسَانُ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس سے مراد کفار ہیں، کیونکہ مومن شکر گزار ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ» [ سبا: ۱۳ ]”اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔“ کفار کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۲۲، ۲۳)، عنکبوت (۶۵)، لقمان (۳۲) اور زمر (۸) یہ تو زمانۂ جاہلیت کے ان لوگوں کا حال تھا جو مشرک تھے اور اللہ اور رسول نے انھیں مشرک قرار دیا، حالانکہ وہ سخت مصیبت میں صرف اللہ کو پکارتے تھے، مگر ہمارے زمانے کے بعض مسلمان کہلانے والوں کا کمال یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی اللہ کے ساتھ یا اللہ کے علاوہ دوسروں کو مدد کے لیے پکارنا نہیں بھولتے، پھر بھی نہ ان کی توحید میں کوئی خلل آتا ہے، نہ اسلام کا کچھ بگڑتا ہے۔