(آیت 60) ➊ وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ: لوگوں سے مراد کفار مکہ ہیں اور ان کا احاطہ کر لینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنا پورا زور لگانے کے باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور نہ آپ کی دعوت کو پھیلنے سے روک سکے۔ اس سے مقصود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حوصلہ دلانا ہے کہ آپ بے خوف و خطر اپنی دعوت پیش کرتے رہیے، ان لوگوں کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کیجیے، یہ آپ کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ سب پوری طرح ہماری گرفت میں ہیں۔
➋ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْۤ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ: ” الرُّءْيَا “”رَأَي يَرَي“(ف) کا مصدر ہے، آیت میں مذکور ” الرُّءْيَا “ سے مراد زمین اور آسمانوں کی وہ عجیب و غریب چیزیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء و معراج کی رات اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ نے اسراء و معراج کی رات جو کچھ دیکھا ہم نے اسے لوگوں کے لیے فتنہ اور آزمائش ہی بنایا، تاکہ آزمائش ہو جائے کہ کون قوی ایمان والا اور سلیم القلب ہے اور کون ضعیف ایمان والا اور مریض القلب۔ سو مضبوط ایمان والوں کو اسے ماننے میں کوئی تردد نہیں ہوا، چنانچہ وہ امتحان میں کامیاب ہو گئے اور کمزور ایمان والے اور ایمان سے محروم لوگ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں مکہ سے بیت المقدس اور ساتوں آسمانوں کے عجائبات دیکھ کر واپس بھی آ جائیں؟ یہ ناممکن ہے۔ سو وہ امتحان میں ناکام ہو گئے۔
➌ ” الرُّءْيَا “ کا لفظ اکثر خواب میں دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آنکھوں سے دیکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں بیداری میں آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے اور اس کی دلیل خود یہ آیت ہے۔ کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ میں نے یہ سب کچھ خواب میں دیکھا ہے تو نہ کسی کو تعجب ہوتا اور نہ کوئی فتنہ و امتحان ہوتا، کیونکہ خواب میں ہر شخص کو ناممکن و محال چیزیں دکھائی دے سکتی ہیں۔ امتحان یہی تھا کہ صرف مضبوط اہل ایمان تسلیم کر سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یہ سب کچھ رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں دکھانے پر قادر ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تصریح فرمائی: [ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلٰی بَيْتِ الْمَقْدِسِ ][ بخاری، المناقب، باب المعراج…: ۳۸۸۸ ]”یہ آنکھوں سے دیکھا ہوا منظر تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات دکھایا گیا جب آپ کو راتوں رات بیت المقدس لے جایا گیا۔“
➍ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ: ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت جو اس سے پہلے فائدے میں بیان ہوئی اس میں انھوں نے اس کی تفسیر زقوم کے درخت سے کی ہے۔ قرآن مجید میں ”شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ“ کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے، سورۂ صافات (۶۲ تا ۶۶) اور سورۂ دخان (۴۳ تا ۴۶) میں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر لوگوں کے لیے آزمائش کے طور پر کیا گیا، کیونکہ ایمان سے محروم لوگ مان ہی نہیں سکتے کہ بھڑکتی ہوئی آگ کی تہ میں کوئی درخت اگ سکتا ہے، اس کے برعکس اہل ایمان کو اسے ماننے میں کوئی تردد نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جبریل امین اور رب العالمین کبھی غلط بیانی نہیں کرتے اور آگ میں درخت پیدا کرنا، یا ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ یہاں زقوم کو شجرۂ ملعونہ کہا گیا ہے، اس کا معنی شجرۂ مذمومہ ہے، یعنی قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔
➎ وَ نُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيْدُهُمْ …: یعنی ہم کفار کو مختلف طریقوں سے ڈراتے ہیں، مگر اس سے انھیں بہت بڑی سرکشی میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔