تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 46،45)وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا …: اَكِنَّةً كِنَانٌ کی جمع ہے، چھپانے والی چیز، پردہ۔ وَقْرًا بوجھ، مراد بہرا پن ہے۔ نُفُوْرًا نَافِرٌ کی جمع ہے، بدکتے ہوئے۔ مصدر بھی ہو سکتا ہے، نفرت کی وجہ سے، یعنی جب انھوں نے آخرت سے انکار کیا اور پھر ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے کہ ہزار سمجھانے کے باوجود انکار کرتے ہی چلے گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک گہرا پردہ حائل ہو گیا، ان کے دلوں پر غلاف چڑھ گئے، مگر ایسے جو کسی کو نظر نہیں آتے، نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور ان کے کان ہر نصیحت کرنے والے کی بات سننے سے بہرے ہو گئے، مگر وہ بدبخت ان پردوں کے حائل ہونے اور قرآن کی تاثیر سے محروم ہونے پر فکر کے بجائے فخر ہی کرتے رہے اور مذاق اڑاتے رہے۔ یہود کا بھی یہی حال تھا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۸۸) مشرکین کا حال اللہ تعالیٰ نے سورۂ حم السجدہ (۵) میں بیان فرمایا ہے۔ اگرچہ اس پردے کا باعث ان کی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی تھی مگر چونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے فرمایا کہ آپ کے قرآن پڑھتے وقت ہم یہ پردہ بنا دیتے ہیں۔

ایک معنی اس آیت کا یہ بھی ہے کہ آپ جب قرآن پڑھتے ہیں اور بعض کفار آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے آتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان کے درمیان ایک ایسا پردہ حائل کر دیتے ہیں جو نظر نہیں آتا، اس پردے کی وجہ سے وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے اور نہ آپ کو کوئی نقصان یا تکلیف ہی پہنچا سکتے ہیں۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ جب سورۂ لہب اتری تو عوراء ام جمیل (ابولہب کی بیوی) بڑے جوش سے ہاتھ میں پتھر پکڑے ہوئے آئی اور وہ یہ کہہ رہی تھی: مُذَمَّمًا أَبَيْنَا، وَأَمْرَهُ عَصَيْنَا وَ دِيْنَهُ قَلَيْنَا (ہم مذمم کو نہیں مانتے اور اس کے حکم کی اطاعت نہیں کرتے اور اس کے دین سے دشمنی رکھتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ عورت آ رہی ہے، مجھے خوف ہے کہ یہ آپ کو دیکھ لے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مجھے ہرگز نہیں دیکھے گی اور آپ نے اس سے بچنے کے لیے قرآن کی چند آیات پڑھیں، ان میں سے ایک آیت یہ بھی تھی: «وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا» ‏‏‏‏غرض وہ آئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہو گئی، مگر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ مختصر یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے چند باتوں کے بعد وہ چلی گئی۔ [ مسند أبی یعلٰی: ۲۵۔ مستدرک حاکم: 361/2، ح: ۳۳۷۶ ] حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی، اس کے کئی شواہد ہیں، ارنؤوط کی ابن حبان (۶۵۱) پر تعلیق ملاحظہ فرمائیں۔ بہرحال پہلا معنی اور دوسرا دونوں درست ہیں کہ آپ کے قرآن پڑھتے وقت اگر وہ پاس ہوتے ہیں تو قرآن سننے کے باوجود اس پردے کی وجہ سے جس طرح قرآن سننے کا حق ہے نہ اسے سن سکتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں اور نہ اثر قبول کرتے ہیں اور اگر وہ ایذا رسانی کی نیت سے آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس پردے کے ذریعے سے ان کی نگاہوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

وَ اِذَا ذَكَرْتَ …: اس آیت کی بہترین تفسیر سورۂ زمر کی آیت (۴۵) ہے، اس کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.