(آیت 29)وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً …: ” مَغْلُوْلَةً “”غُلٌّ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی گردن کا طوق ہے، جس کے ساتھ ہاتھ بھی باندھ دیے جائیں، جیسا کہ مجرموں اور قیدیوں سے کیا جاتا ہے، مراد بخل اور کنجوسی ہے اور ” الْبَسْطِ “(کھولنا) سے مراد سخاوت ہے۔ ” مَحْسُوْرًا “ جو تھک ہار کر چلنے سے رہ جائے۔ یعنی بالکل بخیلی کرو گے تو خالق و مخلوق دونوں کے ہاں ملامت کیے ہوئے بن جاؤ گے اور پورا ہاتھ کھول دو گے اور سب کچھ دے کر خالی ہاتھ ہو جاؤ گے تو اہل و عیال کی ملامت کے ساتھ ساتھ زندگی کی دوڑ میں تھک ہار کر بیٹھ رہو گے، پھر ممکن ہے کہ بھیک مانگنے تک کی نوبت آ جائے۔ سب سے بہتر میانہ روی ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا» [ الفرقان: ۶۷ ]”اور وہ لوگ (عباد الرحمان ہیں) کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًی، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ][بخاری، الزکوٰۃ، باب لا صدقۃ إلا عن ظہر غنی: ۱۴۲۶ ]”بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد غنا موجود رہے (انسان فقیر نہ ہو جائے) اور ابتدا ان سے کرو جن کی تم پرورش کر رہے ہو۔“