(آیت 7) ➊ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ …:” لِيَسُوْٓءٗا “” سَاءَهُ يَسُوْءُهُ “ کا فعل مضارع ہے، جو اصل میں ” يَسُوْءُوْنَ “ تھا۔ ”لام كَيْ“ کے بعد ” اَنْ “ مقدر کی وجہ سے نون گر گیا۔ یہ فعل متعدی ہے، غمگین کرنا، برا کر دینا، بگاڑ دینا۔ خوشی ہو یا غم، جسمانی یا قلبی راحت ہو یا اذیت اس کا اثر چہرے پر نمایاں ہوتا ہے، خوشی میں چہرہ چمک اٹھتا ہے اور غم سے کالا ہو جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْٓـَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا» [ الملک: ۲۷ ]”پس جب وہ اس (عذاب) کو قریب دیکھیں گے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے (بگاڑ دیے جائیں گے) جنھوں نے کفر کیا۔“ لوط علیہ السلام کے غمگین ہونے کے متعلق فرمایا: «سِيْٓءَ بِهِمْ» [ ھود: ۷۷ ]”وہ ان (مہمانوں) کی وجہ سے مغموم ہو گیا۔“ اور فرمایا: «ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِيْمٌ» [النحل: ۵۸]”(لڑکی پیدا ہونے کی بشارت ملنے پر) اس کا منہ سارا دن کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔“” عَلَوْا “”عَلَا يَعْلُوْ“ سے ماضی معلوم جمع مذکرغائب ہے، اس کا مفعول محذوف ہے، یعنی”مَا عَلَوْهُ۔“” تَتْبِيْرًا “ ویران کرنا، برباد کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دینا۔ ” لِيُتَبِّرُوْا “ کی تاکید ” تَتْبِيْرًا “ سے کی ہے، اس لیے ترجمہ میں اس کا معنی بری طرح برباد کرنا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلی دفعہ کا عذاب مکمل ” تَتْبِيْرًا “ یعنی دوسری مرتبہ جیسا بری طرح برباد کرنا نہیں تھا، جب کہ دوسری مرتبہ کا عذاب دشمن کے گھروں میں گھسنے اور مسجد کی بے حرمتی سے کہیں بڑھ کر تھا، اس سے بنی اسرائیل بری طرح خوف و غم میں مبتلا ہوئے، حتیٰ کہ ان کے چہرے بگڑ گئے اور دشمن نے بنی اسرائیل کو اس بری طرح برباد کیا کہ وہ مدتوں اٹھ نہیں سکے۔
➋ اس دوسری دفعہ والے بندوں سے مراد کون لوگ ہیں، اگرچہ قرآن نے ان کی تعیین نہیں فرمائی، تاہم اگر دیکھا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت یہودی بیت المقدس سے مکمل بے دخل تھے، وہاں نصرانیوں کا قبضہ تھا اور یہودیوں کو داخلے تک کی اجازت نہیں تھی، وہ مدینہ، خیبر اور دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے تھے تو اللہ کی طرف سے ان زبردست بندوں کے ان پر مسلط ہو کر انھیں مکمل طور پر تباہ و برباد کرکے قدس سے نکال دینے کا اندازہ ہوتا ہے۔ مؤرخین دوسری مرتبہ کا حملہ آور طیوطوس (ٹیوٹس) رومی کو قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کی تعیین کا کوئی معتبر ذریعہ نہیں۔ یہاں آکر اسرائیلیوں کی تاریخ ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کے بعد وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے، چنانچہ اس کے بعد ان ممالک کی تاریخ کے ضمن ہی میں یہود کی تاریخ کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں نصرانیوں کی حکومت تھی جنھوں نے مقابلے کی تاب نہ لا کر ۱۶ ھ میں صلح کے ذریعے سے شہر کی چابیاں امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں۔ قدس سے نکلنے کے بعد تقریباً دو ہزار سال تک یہودی بیت المقدس سے بے دخل رہے۔ مگر جب مسلمانوں نے اللہ کے احکام سے بغاوت اختیار کی، شرک و بدعت، فرقہ پرستی، عیش و عشرت، زنا، شراب، موسیقی، کفار سے دوستی اور ان کی تقلید اختیار کر لی، اپنے ہی دستور و قانون بنا کر کتاب و سنت پر عمل ترک کر دیا۔ دنیا کی محبت میں جہاد چھوڑ بیٹھے تو ان کی بدعملیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمن یہودیوں کو دوسرے کفار کی مدد (بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ) کے ساتھ پھر ۱۹۶۷ء میں بیت المقدس پر قبضے کا موقع دے دیا، مگر یہ سمجھ لینا کہ اب یہ یہودیوں کے قبضے ہی میں رہے گا درست نہیں، مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹیں گے، بلکہ پلٹنا شروع ہو چکے ہیں اور مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ ہو گی، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی نصرت عطا ہو گی جس کا ذکر اس حدیث میں ہے جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُوْنَ الْيَهُوْدَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُوْنَ، حَتّٰی يَخْتَبِئَ الْيَهُوْدِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ أَوِ الشَّجَرِ، فَيَقُوْلُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ! يَا عَبْدَ اللّٰهِ! هٰذَا يَهُوْدِيٌّ خَلْفِيْ، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ، فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُوْدِ ][ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل…: ۲۹۲۲ ]”قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے جنگ کریں گے اور مسلمان انھیں قتل کریں گے، یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپے گا تو پتھر یا درخت کہے گا: ”اے مسلم! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے ہے تو اسے قتل کر دے۔“ سوائے ”غرقد“ نامی درخت کے، کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔“