عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف اور سورۂ مریم کے متعلق فرمایا: [ إِنَّهُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الْأُوَلِ، وَ هُنَّ مِنْ تِلاَدِيْ ][ بخاری، التفسیر، سورۃ بني إسرائیل: ۴۷۰۸ ]”یہ پہلی قدیم سورتوں میں سے ہیں اور یہ میرے قدیم مال میں سے ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ زمر پڑھا کرتے تھے۔ [ مسند أحمد: 68/6، ح: ۲۴۴۴۲، عن عائشۃ رضی اللہ عنہا۔ ترمذی: ۲۹۲۰، و صححہ الألباني ]
(آیت 1) ➊ سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ: اس سورت کی ابتدا اللہ تعالیٰ کو ہر ایسی چیز سے پاک قرار دینے سے کی جو اس کے جلال کے لائق نہیں، چنانچہ فرمایا: «سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ» طنطاوی نے فرمایا، اس کی سب سے اچھی نحوی ترکیب یہ ہے کہ ” سُبْحٰنَ “ اسم مصدر ہے اور فعل محذوف ” سَبَّحْتُ “ یا ” اُسَبِّحُ “ کا مفعول مطلق ہے اور ” الَّذِيْۤ “ کی طرف مضاف ہے، یعنی میں اس (اللہ) کا ہر عیب اور کمی سے پاک ہونا بیان کرتا ہوں جو اپنے بندے…۔ (التفسیر الوسیط) معلوم ہوا کہ آگے کوئی ایسا کام بیان ہونے والا ہے جس کا واقع ہونا انسانی طاقت سے باہر ہے، اس لیے بات یہیں سے شروع فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیبوں، کمزوریوں اور نارسائیوں سے پاک ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں اور وہ ان کاموں پر قادر ہے جن پر اس کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا۔
➋ اَسْرٰى: شیخ سلیمان الجمل نے فرمایا: ” اَسْرٰى “ اور ”سَرٰی“ دونوں کا معنی ہے، وہ رات کو چلا، دونوں فعل لازم ہیں، پہلے کا مصدر ”اَلْإِسْرَاءُ“ ہے اور دوسرے کا ”اَلسُّرٰي“ بروزن ” اَلْهُدٰي“، اس لیے اسے متعدی بنانے کے لیے ” بِعَبْدِهٖ “ میں باء لائی گئی ہے، جس سے معنی ”وہ رات کو چلا“ کے بجائے ”اس نے (اپنے بندے کو) رات کو چلایا“ ہو گیا۔“ اس سے رات کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راتوں کو قیام، دعائیں، اسراء و معراج، راتوں کا سفر سب اس کی دلیل ہیں۔
➌ بِعَبْدِهٖ:”اپنے بندے“ کا لفظ اس محبت اور تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ اگر پیار و محبت اور آپ کی عظمت و شان کے اظہار کے لیے اس سے زیادہ یہاں کوئی لفظ موزوں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسی کو ذکر فرماتا، لفظ ”عَبْدٌ“ منتخب ہی اس لیے فرمایا کہ تمام مخلوقات کی صفات میں سب سے اونچی اور بڑی صفت اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور بندگی ہے، پھر خاص اپنی طرف نسبت کرکے مزید رتبہ بڑھا دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا عبد (بندہ، غلام) قرار دینے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مالک اور معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے، باقی سب اس کے بندے، غلام، اس کے سامنے عاجز اور مطیع ہیں، کیونکہ ” عَبْدٌ “ کا معنی یہی ہے، جیسا کہ فرمایا: «اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا»[ مریم: ۹۳ ]”زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔“ مقصد یہ ہے کہ عبودیت اور الوہیت، یعنی بندگی اور خدائی کے مقام کا فرق بالکل واضح ہو جائے، انھیں ایک نہ سمجھ لیا جائے، جیسا کہ مسیحیت میں ہوا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو، عیسیٰ علیہ السلام کو اور ان کی والدہ کو ایک ہی معبود قرار دے دیا، انھوں نے عبودیت اور الوہیت کے فرق کو نہ سمجھا۔ بعض جھوٹے مسلمانوں نے بھی احد اور احمد کو ایک قرار دے لیا۔ یہ آیت ان کی واضح تردید کرتی ہے۔ علامہ قاسمی نے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ”طَرِيْقُ الْهِجْرَتَيْنِ“ سے نقل فرمایا کہ تمام مخلوق میں سے کامل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبودیت (بندگی) میں سب سے کامل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب اور بلند مرتبہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: [ وَاللّٰهِ! مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُوْنِيْ فَوْقَ مَنْزِلَتِيَ الَّتِيْ أَنْزَلَنِيَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ ][ مسند أحمد: 153/3: ۱۲۵۵۸، سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۱۰۹۷، عن أنس رضی اللہ عنہ ]”اللہ کی قسم! اے لوگو! میں پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مرتبے سے بلند قرار دو جو مجھے اللہ عزوجل نے عطا کیا ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: [ لَا تُطْرُوْنِيْ كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَي ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُهُ ][ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: «واذکر فی الکتاب مریم…»: ۳۴۴۵ ]”مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، میں تو صرف اس کا عبد (بندہ) ہوں، سو تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔“ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر آپ کے بلند ترین مقام اسراء و معراج میں عبودیت کے نام سے فرمایا، چنانچہ فرمایا: «سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ» اور دعوت کے مقام میں فرمایا: «وَ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ» [ الجن: ۱۹ ] اور چیلنج کے مقام میں فرمایا: «وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا» [ البقرۃ: ۲۳ ]
➍ لَيْلًا: زمحشری نے فرمایا، اگر تم کہو کہ ” إِسْرَاءٌ“ کا معنی ہی رات کو چلنا ہے، پھر ” لَيْلًا “ کہنے کا مقصد کیا ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ ” لَيْلًا “ کا لفظ نکرہ کی صورت میں لانے سے رات کی اس مدت کو جس میں سفر کیا، کم بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں مکہ سے شام تک کا چالیس راتوں کا فاصلہ طے کروا دیا، کیونکہ تنکیر یہاں بعضیہ (بلکہ بقول بعض تقلیل وتحقیر) کا معنی دے رہی ہے (یہ بات ترجمہ میں بھی ملحوظ رکھی گئی ہے)۔ یاد رہے! چالیس راتوں یا ایک مہینے سے زائد دنوں کا سفر ایک طرف کا ہے، آنے جانے کا دگنا سمجھ لیں۔
➎ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا: مسجد حرام کعبہ کے اردگرد والی مسجد، کیونکہ اسے کئی طرح کی حرمت حاصل ہے۔ بعض علماء پورے حرم کو مسجد حرام کہتے ہیں۔ جس رات یہ سفر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سوئے ہوئے تھے۔ وہاں سے آپ کو حطیم کعبہ میں لایا گیا اور پھر آپ حطیم سے براق پر سوار ہو کر مسجد اقصیٰ (دور ترین مسجد) یعنی بیت المقدس پہنچے، اس وقت مکہ سے سب مسجدوں سے دور پائی جانے والی مسجد یہی تھی، چونکہ سفر کی ابتدا حطیم سے ہوئی، اس لیے کئی علماء صرف مسجد کے حصے ہی کو مسجد حرام کہتے ہیں۔ بیت المقدس سے معراج (سیڑھی) کے ذریعے سے اوپر ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، راستے میں متعدد جلیل القدر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں، جنت و دوزخ کا مشاہدہ بھی کیا، سدرہ کے پاس ہی جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھا، وہیں آپ کو پہلے پچاس نمازوں اور آخر میں روزانہ پانچ نمازوں کا حکم ہوا، پھر پلٹ کر بیت المقدس آئے تو آپ نے امام بن کر تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے، لیکن قاضی عیاض وغیرہ کا خیال ہے کہ انبیاء کی امامت آپ نے واپسی پر نہیں بلکہ معراج کو جاتے ہوئے کروائی ہے۔ بہرحال اس کے بعد مسجد حرام تشریف لائے۔ واقعۂ اسراء و معراج کی تفصیلات کے لیے تفسیر ابن کثیر اور کتب احادیث کا مطالعہ فرمائیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل، ترتیب اور سلیقے سے روایات جمع فرما دی ہیں۔
➏ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ”اسراء“ ہے، جو یہاں مذکور ہے اور وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر ”معراج“ کہلاتا ہے۔ اس کا ذکر سورۂ نجم اور کتب احادیث میں ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث مع سند ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے بعض روایات کے آخر میں فرمایا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”اس حدیث کے الفاظ دلیل ہیں کہ معراج اسی رات ہوئی ہے جب آپ مکہ سے بیت المقدس گئے ہیں اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔“
➐ قرطبی نے فرمایا کہ اسراء کا واقعہ حدیث کی تمام کتابوں میں ثابت ہے اور اسلام کے زیر نگیں تمام علاقوں کے صحابہ سے مروی ہے، اس لحاظ سے یہ متواتر ہے۔ نقاش نے اسے نقل کرنے والے بیس صحابہ ذکر کیے ہیں۔ گو بعض جزئیات میں اختلاف ہے مگر اصل واقعہ بلاشک و شبہ ثابت ہے۔ (قرطبی)
➑ علمائے سلف و خلف رحمۃ اللہ علیھم کا عقیدہ ہے کہ یہ واقعہ بیداری میں روح اور جسم سمیت پیش آیا اور قرآن میں لفظ ”بِعَبْدِهٖ “ سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے، کیونکہ عبد صرف روح کو نہیں کہتے، بلکہ روح مع جسد کو کہتے ہیں۔ پھر اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار قریش اسے نہ جھٹلاتے، کیونکہ خواب میں تو ہر ایک کو عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور نہ قرآن ہی ” سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ “ کی تمہید کے ساتھ اسے بیان کرتا، کیونکہ ان تمہیدی الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم اور خرق عادت واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، پھر ” لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا “ اور ” مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى “(نجم: ۱۷) میں بھی سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر ہے، پھر براق پر سواری بھی جسمانی معراج کی دلیل ہے۔ بعض علماء نے آیت کریمہ: «وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْۤ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ» [ بنی إسرائیل: ۶۰ ] میں لفظ ” الرُّءْيَا “ سے استدلال کیا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے، مگر محققین علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ لفظ ” الرُّءْيَا “(جو ”رَأَي يَرَي“ کا مصدر ہے) بیداری میں آنکھوں کے دیکھنے پر بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں یہی مراد ہے اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے تصریح فرمائی ہے: [ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلٰی بَيْتِ الْمَقْدِسِ ][ بخاری، مناقب الأنصار، باب المعراج: ۳۸۸۸ ]”یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات دکھایا گیا جس رات آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا۔“ معلوم ہوا کہ اس آیت سے ان علماء کا استدلال درست نہیں ہے، تمام صحابہ روایتاً و درایتاً اس پر متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج بیداری کی حالت میں ہوئی اور جسم کے ساتھ ہوئی۔ صرف عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ معراج خواب میں ہوئی، مگر ایک تو یہ روایت سنداً منقطع ہے اور پھر ان کی اپنی رائے اور آیت کریمہ «وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْۤ اَرَيْنٰكَ» [ بنی إسرائیل: ۶۰ ] سے استدلال ہے جو صحابہ کے متفقہ فیصلے کے مقابلے میں توجہ کے قابل نہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر)
➒ علامہ جمال الدین قاسمی کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ اسراء بعثت نبوی کے بعد ہوا ہے اور یہ کہ وہ ہجرت سے ایک سال پہلے تھا۔ زہری اور ابن سعد وغیرہ کا یہی کہنا ہے، امام نووی نے بھی یہ بات یقین سے کہی ہے، ابن حزم رحمہ اللہ نے مبالغہ کرتے ہوئے اس پر اجماع نقل فرمایا ہے اور کہا ہے کہ یہ (اسراء و معراج) رجب ۱۲ نبوی میں ہوئی ہے۔ طبیعت کو اطمینان اس بات پر ہوتا ہے کہ اسراء و معراج کے واقعات ابوطالب اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ہوئے ہیں، کیونکہ اس دوران میں مشرکین کی ایذا بہت بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ انعام ان کی طرف سے پیش آنے والی ایذا سے تسلی دینے کے لیے اور آپ کی عزت افزائی اور تکریم کے لیے عطا فرمایا۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ اکثر روایات کے مطابق یہ قصہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ملا امین عمری نے اسے قطعی قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں تین سال قبل بھی مذکور ہے۔
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیحین میں ”شریک عن انس“ کی سند سے جو مذکور ہے کہ اسراء مذکور خواب میں واقع ہوا، وہ کتاب و سنت کی صریح نصوص اور اہل السنۃ والجماعہ کے عقیدے (کہ اسراء و معراج بیداری میں جسمانی ہوئی) کے خلاف نہیں، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ پہلے یہ سب کچھ آپ کو خواب میں دکھایا گیا ہو اور پھر اس کی تصدیق بیداری میں دکھا کر کی گئی ہو، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا: «لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِيْنَ» [ الفتح: ۲۷ ]”تم مسجد حرام میں ضرور بضرور داخل ہوگے، اگر اللہ نے چاہا، امن کی حالت میں، اپنے سر منڈاتے ہوئے اور کتراتے ہوئے۔“ پھر بیداری میں اس کی تصدیق بالفعل بھی فرما دی گئی۔ اس کی تصدیق عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح کے طلوع ہونے کی طرح دن کو سامنے آ جاتا۔ علاوہ ازیں انس رضی اللہ عنہ سے شریک کے علاوہ بہت سے حفاظ نے یہ روایت بیان کی ہے، لیکن کسی نے بھی شریک کے خواب میں دیکھنے والے الفاظ بیان نہیں کیے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے فرمایا کہ شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت صحیح یاد نہیں رکھی۔ امام مسلم نے فرمایا کہ شریک نے یہ حدیث ثابت بنانی (انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد) کی طرح بیان کی اور اس میں کچھ چیزیں آگے پیچھے کر دیں اور کچھ کم زیادہ کر دیں۔ دوسرے تمام حفاظ کی روایت صحیح ہے اور اس میں شریک والے الفاظ نہیں ہیں۔
➓ بعض لوگ معراج کی رات میں لیلۃ القدر کی طرح خصوصی قیام اور تلاوت و ذکر کا اہتمام کرتے ہیں، اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی تو کم از کم کسی صحیح سند کے ساتھ اس مہینے اور دن کی تعیین ضرور معلوم ہوتی، جس میں یہ واقعہ ہوا اور صحابہ بھی اس رات اس کا اہتمام کرتے، جبکہ ستائیس (۲۷) رجب کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے اس رات کی خاص عبادت کا کہیں ذکر ہے، رہی آتش بازی اور چراغاں تو وہ آتش پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے جس سے پرہیز لازم ہے۔
⓫ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے یا نہیں، یہ بحث سورۂ نجم (۹) «فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى» میں آئے گی اور معراج کے واقعہ کا بقدر ضرورت ذکر بھی وہیں ہو گا۔ (ان شاء اللہ)
⓬ الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ: یعنی وہاں ظاہری اور مادی برکات بھی ہیں کہ وہاں چشموں، نہروں اور ہر قسم کے غلے اور پھلوں کی بہتات ہے اور معنوی و باطنی اعتبار سے بھی وہ خطہ بابرکت ہے کہ بیت المقدس میں چاروں مقدس کتابیں پڑھی گئیں، بہت سے انبیاء و رسل وہاں مبعوث ہوئے، وہاں دنیا میں کعبۃ اللہ کے بعد بنائی جانے والی دوسری مسجد ہے، جو ان تین مساجد میں شامل ہے جن کے علاوہ کسی جگہ ثواب کی نیت سے کجاوے کس کر جانا منع ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ یہ اصطلاح بیت المقدس اور شام کے لیے آئی ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ نَجَّيْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ»[ الأنبیاء: ۷۱]”اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی۔“ اور فرمایا: «وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا»[ الأنبیاء: ۸۱ ]”اور سلیمان کے لیے ہوا (مسخر کر دی) جو تیز چلنے والی تھی، اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی۔“ ان تمام آیات سے مراد سرزمین شام ہے۔
⓭ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا: اسراء میں پیش آنے والی نشانیاں، مثلاً آپ کے مکان کی چھت کا کھولا جانا، جبریل علیہ السلام کا آپ کا سینہ مبارک چاک کرکے دل کو زم زم سے دھو کر ایمان و حکمت سے بھر کر پھر ملا دینا، براق کی سواری جس کا قدم حد نگاہ پر پڑتا تھا، مہینوں کا سفر لمحوں میں طے ہونا، بیت المقدس میں دودھ اور شراب کا پیش کیا جانا اور آپ کا دودھ کو پسند فرمانا، انبیاء علیہم السلام کی ملاقات اور امامت وغیرہ، پھر سفر معراج کی بے شمار نشانیاں ان کے علاوہ ہیں جن کے متعلق فرمایا: «لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى» [ النجم: ۱۸ ]”بلاشبہ یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔“
⓮ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ” سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى “ میں اپنا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا، پھر ” بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ “ اور ” لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا “ میں تین مرتبہ جمع متکلم برائے تعظیم کے ساتھ، پھر اس آیت کے آخر میں ”اِنَّهٗ هُوَ “ غائب کے ساتھ اور اس سے اگلی آیت میں پھر جمع متکلم کے ساتھ فرمایا ہے، پھر بھی سمجھنے میں کسی جگہ کوئی الجھن پیش نہیں آئی بلکہ لطف محسوس ہوتا ہے۔ کلام کا یہ اسلوب بلاغت کا کمال ہے، اسے عربی میں التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ واقعۂ اسراء سن کر اہلِ ایمان کے اسے تسلیم کرنے کو اور کفار کے اس سے انکار کو اور دونوں نے اس پر جو کچھ کہا اور کیا یقینا وہ صرف وہی (اللہ) ہے جو سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا اور اس کے مطابق ہر ایک سے معاملہ کرنے والا اور جزا و سزا دینے والا ہے۔