(آیت80) ➊ وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا: ”بُيُوْتٌ“”بَيْتٌ“ کی جمع ہے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا، جو تمھارے اوپر ہو، سایہ کر رہی ہو اسے سقف، چھت اور سماء کہتے ہیں، جو نیچے ہو اسے ارض کہتے ہیں اور جو چاروں طرف سے تمھارے لیے پردہ کر رہی ہو اسے جدار (دیوار) کہتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ترتیب کے ساتھ منظم ہو جائیں تو وہ بیت (گھر) ہے۔ ” سَكَنًا “ مصدر ہے، اس کا معنی کسی جگہ میں رہنا بھی ہے، جیسے فرمایا: « اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ »[ الطلاق: ۶ ]”انھیں (یعنی مطلقہ بیویوں کو) وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق۔“ اس کا معنی سکون اور راحت بھی ہے، جیسے فرمایا: « وَ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا » [ الأعراف: ۱۸۹ ]”اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جا کر) سکون حاصل کرے۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رہائش کے متعلق اپنی کئی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھر میں رہنے کی قدر اور اس میں آ کر ملنے والی راحت، عافیت اور سکون کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کے پاس گھر نہ ہو۔ اس آیت سے مکان کی قدر و قیمت اور اس نعمت کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ گھر جسمانی اور نفسیاتی سکون کی جگہ ہے۔ اسلام گھر کو سکون کی جگہ دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ باہمی جھگڑے اور اختلاف کی، کیونکہ یہ ”گھر“ کی حکمت اور مقصد کے خلاف ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے گھر کی حرمت رکھی۔ فرمایا کہ بلااجازت کوئی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہو، حتیٰ کہ جھانکنے سے بھی منع فرمایا اور تجسس سے بھی۔ گھر کی حرمت سورۂ نور (۲۷ تا ۲۹ اور ۵۸، ۵۹) میں دیکھیں۔ علاوہ ازیں سورۂ احزاب کی آیت (۵۳) بھی ملاحظہ فرما لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلسَّفَرُ قِطْعَةٌ مِّنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَنَوْمَهٗ، فَإِذَا قَضَی نَهْمَتَهُ فَلْيُعَجِّلْ إِلٰی أَهْلِهِ ][ بخاری، العمرۃ، باب السفر قطعۃ من العذاب: ۱۸۰۴، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]”سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے جو تمھارے ایک کو اس کے کھانے اور پینے اور اس کی نیند سے روک لیتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص اپنی حاجت پوری کر لے تو جلدی اپنے گھر آ جائے۔“
➋ وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا: اگرچہ گھر کوئی بھی ہو بڑی نعمت ہے، مگر اینٹوں، پتھروں کا گھر بنانے میں نعمت ہونے کے باوجود مشقت، بوجھ اور خرچ زیادہ ہے، سب سے پہلے زمین حاصل کرنا، اینٹیں، پتھر، مصالحہ، مٹی، لکڑی، لوہا، غرض سب کچھ مہیا کرنا، پھر مستریوں کے ناز اٹھانا، سارے مراحل مشکل ہیں، پھر وہ مکان کہیں منتقل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا انعام دیکھیے کہ اس نے ہماری آسانی کے لیے جانوروں کے چمڑوں سے خیمے بنا دیے، چند لکڑیاں اور رسیاں اور بنا بنایا مکمل گھر، جہاں چاہا میخیں ٹھونک کر رسیاں باندھ کر خیمہ بنا لیا، اسی چمڑے کی قناتیں کھڑی کرکے چار دیواری بنا لی۔ پھر جب چاہا اکھاڑ کر تہ کرکے ساتھ رکھ لیا اور اگلی منزل پر روانہ ہو گئے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی ہلکے پلاسٹک اور المونیم کے خیمے عطا فرما دیے۔
➌ تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ يَوْمَ اِقَامَتِكُمْ …: ” تَسْتَخِفُّوْنَهَا “”خَفَّ يَخِفُّ“ سے باب استفعال جمع مذکر حاضر ہے۔ ”يَوْمَ ظَعْنِكُمْ “ یہاں ” يَوْمَ “ سے مراد وقت ہے۔ ”أَصْوَافٌ“”صُوْفٌ“ کی جمع ہے، بھیڑ کی اون۔ ”أَوْبَارٌ“”وَبَرٌ “ کی جمع، اونٹ کی پشم۔ ”أَشْعَارٌ“”شَعْرٌ“ کی جمع ہے، بکریوں کے بال۔ ” اَثَاثًا “ گھر کا سازو سامان جو بہت ہو۔ ”أَثَّ يَؤُثُّ“(ن) جب کوئی چیز بہت اور گھنی ہو۔ امرء القیس نے بالوں کی چوٹی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے:
وَ فَرْعٍ يَزِيْنُ الْمَتْنَ أَسْوَدَ فَاحِمٍ
أَثِيْثٍ كَقِنْوِ النَّخْلَةِ الْمُتَعَثْكِلِ
” أَثِيْثٍ “ یعنی گھنے، ” مَتَاعًا “ گھر کی ضرورت کی خاص چیزیں جن سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔” اَثَاثًا “ میں” مَتَاعًا “ بھی داخل ہے، مگر اس کی اہمیت کی بنا پر الگ بھی ذکر فرمایا۔ ” اِلٰى حِيْنٍ “ ایک وقت تک، یعنی جو اللہ تعالیٰ نے طے کر رکھا ہے، مثلاً نیا سامان آنے تک، یا اس کے پرانا ہونے تک، یا دنیا سے رخصت ہونے تک۔