(آیت79)اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَآءِ …: ” الطَّيْرِ “”طَائِرٌ“ کی جمع ہے، اڑنے والا، اگرچہ بعض لوگ ” فَاعِلٌ “ کی جمع ” فَعْلٌ “ کا انکار کرتے ہیں، مگر شنقیطی رحمہ اللہ نے اس کی کئی مثالیں ذکر فرمائی ہیں، جیسا کہ ”صَاحِبٌ“ کی جمع ” صَحْبٌ۔“ امرء القیس نے کہا:
وُقُوْفًا بِهَا صَحْبِيْ عَلَيَّ مَطِيَّهُمْ
يَقُوْلُوْنَ لَا تَهْلِكْ أَسًي وَ تَجَمَّلِ
”رَاكِبٌ “ کی جمع ”رَكْبٌ“، ”شَارِبٌ“ کی ”شَرْبٌ“ اور ”سَافِرٌ“ کی ”سَفْرٌ“ وغیرہ۔ کیا ان مشرکوں نے آسمان و زمین کے درمیان اڑتے ہوئے پرندوں پر غور نہیں کیا، وہ کون سی ہستی ہے جس نے ان کے پروں، بازوؤں اور دموں کی ساخت اڑنے کے قابل بنائی اور زمین و آسمان کے درمیان اڑتے ہوئے انھیں گرنے سے تھامے رکھا، کوئی دعوے دار ہی سامنے لائیں، پھر بھی یہ اللہ کے ساتھ شریک بنا رہے ہیں، سچ ہے کہ ان نشانیوں سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو بات سمجھ جائیں تو مان لیں، جو ماننے پر آمادہ ہی نہ ہوں ان کے لیے ہر نشانی بے فائدہ ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ ملک (۱۹)۔