(آیت78) ➊ وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ …: اس سورت کی آیت(۶۵) « وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً » سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر اور اس کے اکیلے معبود ہونے کے جو دلائل شروع ہوئے تھے وہی سلسلۂ کلام جاری ہے۔ اس آیت میں پہلا انعام ماؤں کے پیٹوں سے نکالنا ہے۔ اس سے پہلے بہت سے مراحل خود بخود اس میں آ جاتے ہیں۔ نو ماہ تک پیٹ میں مکمل بچہ بنانے کے بعد اسے نکلنے کا راستہ مہیا کرنا اور ماں اور بچے دونوں کی خیریت کے ساتھ بچے کو باہر لے آنا کیا معمولی بات ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے اتنے بڑے احسان کے باوجود انسان کے ناشکری اور شرک اختیار کرنے پر اس کے لیے بہت سخت الفاظ استعمال فرمائے، فرمایا: « قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗ (17) مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ (18) مِنْ نُّطْفَةٍ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ (19) ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ»[ عبس: ۱۷ تا ۲۰ ]”مارا جائے انسان! وہ کس قدر ناشکرا ہے، اس نے اسے کس چیز سے پیدا کیا۔ ایک قطرے سے، اس نے اسے پیدا کیا، پس اس کا اندازہ مقرر کیا، پھر اس کے لیے (ماں کے شکم سے نکلنے کا) راستہ آسان کر دیا۔“
➋ لَا تَعْلَمُوْنَ شَيْـًٔا: انسان ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو اسے کچھ علم نہیں ہوتا، پھر کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ اسے فطری طور پر سکھا دیتا ہے، مثلاً ماں کا دودھ تلاش کر لینا، اسے چوسنا، جو چیز ملے منہ میں ڈالنا وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ کھانے پینے اور زندگی قائم رکھنے کی دوسری ضروریات کے حصول کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ ہر چیز کی فطرت میں رکھ دیا ہے، ورنہ کوئی چیز زندہ نہ رہتی۔
➌ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ …: کان، آنکھیں اور دل اگرچہ ہر جاندار کو عطا ہوئے ہیں، مگر دوسرے تمام جاندار ان سے اتنا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں جتنا ان کی فطرت میں ہے۔ بطخ آج سے لاکھوں سال پہلے جس طرح تیرتی تھی اب بھی اس میں کوئی تبدیلی یا ترقی نہیں ہوئی، یہی حال پرندوں کا اور چوپاؤں اور سمندری جانوروں کا ہے، درندے اور کیڑے مکوڑے بھی ایک ہی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں، جب کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار سے بھی نوازا ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے کسی بھی چیز کو اختیار کر سکتا ہے، پھر اس کو عطا کردہ کان، آنکھیں اور دل پچھلی نسلوں کے تجربے قلم سے محفوظ رکھتے ہیں، انھیں بعد والوں تک پہنچاتے اور نئی سے نئی ایجاد میں لگے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انسان ان کی بدولت اتنی دنیاوی ترقی کر چکا ہے کہ رہائش، سفر، کھانے پینے، غرض ہر چیز میں پہلے انسان اور آج کے انسان کی آسائشوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی طرح توانائی کے حصول میں وہ ایٹم تک پہنچ گیا ہے، جس سے وہ بربادی کا بے حساب سامان بھی تیار کر چکا ہے اور انسانی فوائد کا بھی۔ غرض اگر انسان اللہ کی عطا کر دہ صلاحیتوں پر غور کرے تو کبھی نہ اس کے وجود کا انکار کرے، نہ اس کا کوئی شریک بنائے، نہ اس کے علاوہ کسی کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا یا غریب نواز قرار دے کر پکارے، کیونکہ کسی نعمت میں کسی اور کا کوئی حصہ ہی نہیں اور نہ اس کی بندگی اور فرماں برداری میں کوتاہی کرے، بلکہ ہر دم اپنے دل، زبان اور ہر عضو کے ساتھ قولاً و عملاً اس کا شکر ادا کرے۔
➍ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ: اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ اس لیے بنایا کہ تم شکرکرو۔ یہاں اگرچہ ذکر نہیں فرمایا کہ انسان نے شکر ادا کیا یا نہیں، مگر دوسرے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اکثر لوگ شکر نہیں کرتے، جیسے فرمایا: « وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ »[ المؤمن: ۶۱ ]”اور لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔“ اور فرمایا: « وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ »[ سبا: ۱۳ ]”اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر کرنے والے ہیں۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی پہچان کے لیے نہ اپنے ان کانوں سے کام لیتے ہیں، نہ آنکھوں سے اور نہ دلوں سے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۷۹)۔