(آیت77) ➊ وَ لِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: ” غَيْبُ “ جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو سکے، نہ عقل سے، مخلوق سے پوشیدہ ہو۔ ” لِلّٰهِ “ خبر ہے ” غَيْبُ السَّمٰوٰتِ “ کی۔ بعد میں آنے کے بجائے پہلے آنے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، اس لیے ترجمہ ”اللہ ہی کے پاس ہے“ کیا گیا۔ صرف اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کے دلائل میں سے یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ ساتھ ہی ایک ایسے غیب کا ذکر فرما دیا جو اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، کیونکہ وہ غیب کا علم کسی کو بتایا ہی نہیں گیا اور وہ قیامت ہے اور اس کا علم ہونا سچا معبود ہونے کی دلیل اور علم نہ ہونا باطل ہونے کی دلیل ہے۔ دیکھیے سورۂ نحل (۲۱)۔
➋ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ …: ” السَّاعَةِ “ زمانے کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ، مراد قیامت ہے، کیونکہ وہ اچانک اتنے کم وقت میں قائم ہو جائے گی۔ ” اَوْ هُوَ اَقْرَبُ “ میں ” اَوْ “ بمعنی ” بَلْ “ ہے، جیسا کہ یونس علیہ السلام کے متعلق فرمایا: « وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ »[ الصافات: ۱۴۷ ]”اور ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا، بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔“ دوسری جگہ اپنے امر (کُنْ) کے متعلق فرمایا: « وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۭ بِالْبَصَرِ »[ القمر: ۵۰ ]”اور ہمارا حکم تو صرف ایک بار ہوتا ہے، جیسے آنکھ کی ایک جھپک۔“ اور یہاں ” اَوْ هُوَ اَقْرَبُ “ فرمایا، کیونکہ آنکھ جھپکنا بھی کچھ وقت چاہتا ہے، قیامت اس سے بھی کم وقت میں قائم ہو جائے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
بعض علماء نے اس کا معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ تم قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہو، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آنکھ جھپکنے سے بھی زیادہ قریب ہے، جیسا کہ فرمایا: « اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا (6) وَ نَرٰىهُ قَرِيْبًا »[ المعارج: ۶، ۷ ]”بے شک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔“