اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے شریف میں آئے تو لوگ جواری شرابی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا اور آیت «يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا»[2-البقرۃ:219] نازل ہوئی۔
اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ” ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں “۔ چنانچہ شراب پیتے رہے۔
ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو قرأت خط ملط ہو گئی اس پر آیت «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا»[4-النسآء:43] نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی۔
اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیت «يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ»[5-المائدہ:90] نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ رضی اللہ عنہم بول اٹھے «اِنْتَهَیْنَا رَبَّنَا»”اے اللہ ہم اب باز رہے، ہم رک گئے۔“
پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے سے پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت «لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ»[5-المائدہ:93] ، نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے ۔ [مسند احمد:351/2:ضعیف]
مسند احمد میں ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا اللہ ہمارے سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورۃ البقرہ کی آیت «فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ» [2-البقرہ:219] نازل ہوئی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اے اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما!۔“
پس سورۃ نساء کی آیت «لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ»[4-النساء:43] نازل ہوئی اور مؤذن جب «حی علی الصلوۃ» کہتا تو ساتھ ہی کہہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے قریب بھی نہ آئیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا کہ ”اے اللہ اس بارے میں صفائی سے بیان فرما۔“ پس سورۃ المائدہ کی آیت اتری آپ رضی اللہ عنہ کو بلوایا گیا اور یہ آیت «إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ»[5-المائدہ:91] سنائی گئی جب «فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ» تک سنا تو فرمانے لگے « اِنْتَهَیْنَا اِنْتَهَیْنَا» ہم رک گئے ہم رک گئے۔ [سنن ابوداود:3670، قال الشيخ الألباني:صحیح]
بخاری و مسلم میں ہے کہ ”سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے منبرنبوی پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ”شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی، انگور، شہد، کھجور، گہیوں اور جو۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آ جائے خمر ہے۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور حرام ہے۔“[صحیح بخاری:4619]
صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے موقع پر مدینے شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی۔“[صحیح بخاری:4616]
ابوداؤد طیالسی میں ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”شراب کے بارے میں تین آیتیں اتریں۔ اول تو آیت «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ»[2-البقرۃ:219] والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی۔ اس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئیے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ پھر آیت «لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ»[4-النساء:43] والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی۔ لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ اب شراب حرام ہوگئی ۔ [بیهقی فی شعب الایمان:5570:ضعیف]
مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے یا قبیلہ دوس میں سے۔ فتح مکہ والے دن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور ایک مشک شراب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفتاً دینے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کر دیا ہے ۔ اب اس شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کہا؟ اس نے جواب دیا کہ بیچنے کو کہہ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس اللہ نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے ۔ اس نے اسی وقت کہا جاؤ اسے لے جاؤ اور بطحاء کے میدان میں بہا آؤ ۔ [صحیح مسلم:1579]
ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ سیدنا تمیم دارمی رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ دینے کیلئے ایک مشک شراب کی لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا: یہ تو تمہارے جانے کے بعد حرام ہو گئی ہے ۔ کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کر لوں گا، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کیا، اللہ تعالیٰ نے شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کر دیا ہے ۔ [طبرانی کبیر:1275:ضعیف]
مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے، اس میں ہے کہ ہر سال دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے تھے، اس کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام ۔ [مسند احمد:227/4:صحیح]
ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ کیسان رضی اللہ عنہ شراب کے تاجر تھے جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے لائے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تو حرام ہوگئی ۔ پوچھا پھر میں اسے بیچ ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے ۔ چنانچہ کیسان رضی اللہ عنہ نے وہ ساری شراب بہا دی ۔ [مسند احمد:335/4:ضعیف]
مسند احمد میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں ابوعبیدہ بن جراح ابی بن کعب، سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے تھے قریب تھا کہ نشے کا پارہ بڑھ جائے، اتنے میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آکر خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہو گئی؟ انہیں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا۔ یہ شراب کھجور کی تھی اور عموماً اسی کی شراب بنا کرتی تھی ۔ یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:5582]
اور روایت میں ہے کہ شراب خوری کی یہ مجلس سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر تھی، ناگاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے؟ میں نے جا کر سنا منادی ندا دے رہا ہے کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے، میں نے آکر خبر دی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے سب بہادو میں نے بہادی اور میں نے دیکھا کہ مدینے کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے۔ بعض اصحاب رضی اللہ عنہم نے کہا ”ان کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کر دیئے گئے؟“ اس پر اس کے بعد کی آیت «لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» [5-المائدہ:93] ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں ۔ [صحیح بخاری:2464]
ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے ناموں میں ابودجانہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کا نام بھی ہے اور یہ بھی ہے کہ ندا سنتے ہی ہم نے شراب بہا دی، مٹکے اور پیپے توڑ ڈالے۔ کسی نے وضو کر لیا، کسی نے غسل کر لیا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں سے خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے تو دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھ رہے تھے، ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے جو لوگ فوت ہو گئے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ پس اس کے بعد آیت اتری۔
کسی نے قتادہ رحمة الله سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث خود سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ فرمایا ”ہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں؟“[تفسیر ابن جریر الطبری:12531:صحیح بالشواهد]
مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے شراب اور پانسے اور بربط کا باجا حرام کر دیا ہے، شراب سے بچو «غُبَیْرَا» نام کی شراب عام ہے ۔ [مسند احمد:422/3:ضعیف]
مسند احمد میں ہے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنالے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شراب جوا پانسے اور غبیرا سب حرام ہیں اور ہر نشے والی چیز حرام ہے [مسند احمد:171/2:صحیح]
مسند احمد میں ہے شراب کے بارے میں دس لعنتیں ہیں خود شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے بنانے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس یہ اٹھا کر لے جایا جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر ۔ [سنن ابوداود:3674،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند میں ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باڑے کی طرف نکلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب چل رہا تھا جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے میں ہٹ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چلنے لگے تھوڑی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آگئے میں ہٹ گیا آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باڑے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: چھری لاؤ ۔ جب میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں، پھر فرمایا: شراب پر، اس کے پینے والے پر، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدار پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بنانے والے پر، بنوانے والے پر، قیمت لینے والے پر سب پر لعنت ہے ۔ [مسند احمد:71/2:صحیح]
مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک مشک بھی نہ چھوڑی ۔ [مسند احمد:132/2:صحیح]
بیہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیچتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے۔“
پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ”سنو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے ۔ لوگوں نے لانی شروع کی، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو۔ جب سب جمع ہوجائے مجھے خبر کرو ۔ جب جمع ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے جانب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کردیا اور میری جگہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لے لی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا: جانتے ہو یہ کیا ہے؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ شراب ہے۔
فرمایا: سنو اس پر اس کے بنانے والے پر، بنوانے والے پر، پینے والے پر، پلانے والے پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا: اسے تیز کرلو ۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشکوں اور مٹکوں کو رہنے دیجئیے اور کام آئیں گی۔ فرمایا: ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غصہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب ناراض ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں۔ فرمایا: نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا۔ [بیھقی:287/8:صحیح]
بیہقی کی حدیث میں ہے کہ ”شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے، ہم افضل ہیں۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں۔ ایک انصاری نے اونٹ کے جبڑا لے کرسیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری۔“[صحیح مسلم:1748]
بیہقی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بے حرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری۔
اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ رضی اللہ عنہم تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہو گا؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے جواب میں اگلی آیت «لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ»[5-المائدة:93] الخ اتری۔ [بیہقی السنن الکبری:285/8:حسن]
ابن جریر میں ہے ”ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھا ناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سلام کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی، بعض وہ بھی تھے، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آ گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:12527:ضعیف]
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ”جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔“[صحیح بخاری:4618]
بزار میں یہ ذیادتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت «لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ»[5-المائدہ:93] نازل ہوئی۔
ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی رضی اللہ عنہ راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو گئی وہ واپس مڑگیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں سچ ہے ۔ کہا پھر مجھے اجازت دیجئیے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں۔ فرمایا: اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں ، کہا پھر اجازت دیجئیے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی ٹھیک نہیں ۔ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے۔ فرمایا: دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے یتیموں کی مدد کریں گے ۔ پھر مدینہ میں منا دی ہوگئی۔ ایک شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے ۔ یہ حدیث غریب ہے۔ [مسند ابویعلیٰ:1884:ضعیف]
مسند احمد میں ہے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اس بہا دو ۔ عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں؟ فرمایا: نہیں ۔ یہ حدیث مسلم ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ [صحیح مسلم:1983]
ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ”عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ ” جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا “۔“[تفسیر ابن ابی حاتم:1196/4:موقوف]
حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالیٰ اسے «طِينَةِ الْخَبَالِ» پلائے گا۔ پوچھا گیا کہ یہ «طِينَةِ الْخَبَالِ» کیا ہے؟ فرمایا: جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ ۔ [مسند احمد:178/2:حسن]
ابو داؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں ناقبول ہیں۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور «طِينَةِ الْخَبَالِ» پلائے گا پوچھا گیا وہ کیا ہے؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے ۔ [سنن ابوداود:3680،قال الشيخ الألباني:صحیح]
بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ [صحیح بخاری:5575]
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بے توبہ مر گیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ [صحیح مسلم:2003]
نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا، ماں باپ کا نافرمان، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا ۔ [سنن نسائی:2563،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے گا ۔ [مسند احمد:27/3:صحیح]
مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اولاد بھی ۔ [مسند احمد:203/2:صحیح]
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لیے بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا، سارا پی گیا۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ، خوب پیا، جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا۔ پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوتے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے۔“[بیہقی]
امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زانی زنا کے وقت، چور چوری کے وقت، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا ۔ [صحیح بخاری:5578]
مسند احمد میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت «لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» [5-المائدہ:93] ، نازل ہوئی یعنی ” ان پر اس میں کوئی حرج نہیں “ اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت «وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ»[2-البقرۃ:143] الخ، نازل ہوئی یعنی ” ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی “۔ [مسند احمد:295/1:صحیح]
مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مرگیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا ۔ [مسند احمد:295/1:حسن]
اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے ۔ [صحیح مسلم:2454]
مسند احمد میں ہے پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے ۔ [مجمع الزوائد:116/8:ضعیف]