(آیت59،58)وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى …: بشارت اچھی خبر جس سے بشرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوں، یہاں بطور استہزا ہے، جیسا کہ فرمایا: « فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ »[آل عمران: ۲۱ ]”سو انھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دے۔“”ظَلَّ كَذَا“ وہ سارا دن اس طرح رہا۔ یہ ”صَارَ“ کے معنی میں بھی آتا ہے کہ وہ اس طرح ہو گیا۔” كَظِيْمٌ “ کا معنی ” كَتْمٌ “(چھپانا) ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ الْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ »[ آل عمران: ۱۳۴ ]”اور غصے کو پی جانے والے۔“ یہ” كَظَمَ الْقِرْبَةَ “ سے لیا گیا ہے۔ جب مشکیزہ پانی سے بھر جائے، پھر اس کا منہ باندھ دیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی پھٹ جائے گا، مراد غم سے بھرا ہوا ہے، یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ اپنے خیال میں اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے، آیا اسے اپنے پاس رکھے اور جاہل معاشرے کی نظر میں ذلیل ہو کر رہنا برداشت کرے یا اسے مٹی میں چھپا دے، یعنی زندہ دفن کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصاً متوجہ کرنے کے لیے فرمایا ” اَلَا “ سن لو، خبردار ہو جاؤ، یہ دونوں فیصلے ہی بہت برے ہیں۔ لڑکی کو حقیر اور ذلیل کر کے رکھنا بھی اور اسے زندہ درگور کرنا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد دینے یا نہ دینے کے متعلق چار قسمیں بنائیں، سب سے پہلے لڑکیوں کو اپنا ہبہ اور عطیہ قرار دیا، فرمایا: « يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَ (49) اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ »[ الشورٰی: ۴۹، ۵۰ ]”وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ اسلام میں بیٹیوں کی پرورش کا اجر بہت بیان کیا گیا، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ شوریٰ کی آیت (۵۰) کی تفسیر۔