(آیت51) ➊ وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَيْنِ اثْنَيْنِ …: اوپر بتایا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز اور اس کی مطیع و فرماں بردار ہیں، اس مناسبت کے ساتھ اب انسانوں کو اس مالک الملک کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانے سے منع فرمایا ہے۔
➋ یہاں ایک سوال ہے کہ ” اِلٰهَيْنِ “ کا معنی ہی دو معبود ہے، پھر ” اثْنَيْنِ “ کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی قباحت میں زور پیدا کرنے کے لیے بات تاکید کے ساتھ کی جاتی ہے، یہاں ” اثْنَيْنِ “ کا مقصد یہی ہے۔ تو جب دو معبود نہیں بن سکتے تو زیادہ کس طرح بن سکتے ہیں؟ صرف اللہ ہے جو اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ قرآن میں یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی، چنانچہ فرمایا: « لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا »[ الأنبیاء: ۲۲ ]”اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔“ اور دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۳۹)۔
➌ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ: ” رَهْبَةٌ “ اس خوف کو کہتے ہیں جس میں ساتھ بچا بھی جائے، باب”عَلِمَ“ سے ہے۔ ” فَاِيَّايَ “ پہلے لانے میں اور پھر ” فَارْهَبُوْنِ “(جو اصل میں فَارْهَبُوْنِيْ تھا) میں دوبارہ یاء لانے میں تاکید پر تاکید ہے کہ صرف میری عبادت کرو۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر غائب کے ساتھ تھا، اب متکلم کے ساتھ ہو گیا، اس التفات کے لیے پہلی فاء آئی ہے۔ اور ”فَاِيَّايَ“ اور ” فَارْهَبُوْنِ “ دونوں پر فاء آئی ہے، پہلی عطف کے لیے ہے اور دوسری محذوف شرط کی جزا کے لیے ہے، گویا عبارت یوں ہے کہ صرف اللہ ہے جو اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے (اور وہ میں ہوں) پس صرف مجھ سے (اگر کسی سے ڈرنا ہے) تو مجھ سے ڈرو، کسی دوسرے سے نہیں۔