(آیت43) ➊ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْۤ اِلَيْهِمْ: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۹)۔
➋ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ: ” اَهْلَ الذِّكْرِ “ سے مراد اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی یہ بات اگر تمھیں معلوم نہیں کہ پہلے تمام رسول مرد (انسان) ہی تھے تو یہودو نصاریٰ سے پوچھ لو جو انبیاء کی تاریخ سے واقف ہیں اور تم ان پر اعتماد بھی مسلمانوں کی نسبت زیادہ کرتے ہو کہ موسیٰ، عیسیٰ، داؤد اور سلیمان وغیرہم علیھم السلام فرشتے تھے یا بشر؟ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیوں کہ یہ نبی انسان کیوں ہے، فرشتہ کیوں نہیں؟
➌ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ:”اگر تم نہیں جانتے“ یہ دراصل تعریض ہے کہ ”جانتے تم بھی ہو“ کیا اپنے باپ ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کو تم نہیں جانتے کہ وہ فرشتہ رسول تھے یا بشر؟ یقینا تم جانتے ہو، خیر اگر نہیں جانتے تو یہود و نصاریٰ سے پوچھ لو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور یوسف علیھم السلام اور سارے بنی اسرائیل کے انبیاء بشر تھے یا فرشتے؟ تم پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔
➍ بعض لوگ اس آیت سے تقلید کے وجوب یا جواز پر استدلال کرتے ہیں، حالانکہ آیت کے سیاق و سباق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے مخاطب مشرکین ہیں اور ” اَهْلَ الذِّكْرِ “ سے مراد اہل کتاب ہیں اور آیت میں ایک خاص اعتراض کے حل میں ان کی طرف رجوع کا حکم دیا جا رہا ہے، اس کا تقلیدِ ائمہ سے کیا تعلق؟
➎ اگر آیت کو عام بھی سمجھ لیا جائے تو غیر عالم مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے کسی بھی موجود عالم سے کتاب و سنت کا حکم معلوم کر لیں، کیونکہ فوت شدہ شخص سے پوچھا ہی نہیں جا سکتا۔ ظاہر ہے چاروں امام بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو چکے ہیں، ان سے سوال تو ممکن ہی نہیں۔ ہاں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کتاب و سنت میں محفوظ ہیں اور اماموں کے اقوال ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اب کوئی شخص دونوں میں سے جو بھی پوچھے گا کسی زندہ عالم ہی سے پوچھے گا، وہ عالم مکمل طور پر محفوظ کتاب و سنت سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی بتا سکتا ہے اور کسی معتبر یا غیر معتبر کتاب سے امام کا قول بھی۔ اس لیے سائل کا فرض یہ ہے کہ وہ کسی بھی عالم سے یہ پوچھے کہ اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے، کیونکہ دین صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔ جب بڑے سے بڑے امتی کا قول بھی دین نہیں تو پھر سائل عالم سے کسی امام کا قول کیوں پوچھے؟ کیا وہ امام نبی تھا، یا اللہ تعالیٰ نے اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے، یا وحی کے ذریعے سے اس کی خطا کی اصلاح کر دی جاتی تھی۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو گی کہ مسلمانوں نے علماء سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پوچھنے کے بجائے اپنے اپنے فرقے کے بنائے ہوئے امام کے اقوال پوچھنا اور ان پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ نتیجہ اس کا ظاہر ہے کہ مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ اس کا علاج اب بھی سب فرقے چھوڑ کر کتاب و سنت پر متحد ہونا ہے۔ خصوصاً آگے صاف لفظ بھی آ رہے ہیں کہ ” بِالْبَيِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ “ یعنی اہل ذکر سے سوال کرو کہ وہ بینات (دلائل) اور آسمانی کتابوں کے ساتھ جواب دیں، نہ کہ اپنے یا کسی امتی کے قیاس یا عقل سے نکالی ہوئی کسی بات کے ساتھ۔ گویا اس آیت کو اگر تقلید کے متعلق مان بھی لیا جائے تو یہ تقلید کو جڑ سے اکھیڑنے والی اور کتاب و سنت کا پابند بنانے والی ہے۔
➏ ” اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ “ سے معلوم ہوا کہ اہل ذکر سے پوچھنے کی ضرورت اسے ہے جو لاعلم ہو۔ کیا بڑے بڑے مدارس میں دس، دس سال پڑھنے کے بعد اور چالیس پچاس سال پڑھانے کے بعد بھی مقلد حضرات ” لَا تَعْلَمُوْنَ “ ہی رہتے ہیں، حالانکہ وہ قرآن و سنت پر عمل سے بچنے اور اپنے امام کی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے اتنے علمی و عقلی دلائل جمع کرتے اور پیش کرتے ہیں جو شاید ان کے امام کے خواب و خیال میں بھی نہ آئے ہوں۔ میں اپنے ان بھائیوں سے نہایت درد مندی سے عرض کرتا ہوں کہ وہ قیامت کے دن کسی دھڑے یا فرقے میں کھڑے ہونے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے والی قطار میں شامل ہو جائیں۔ نجات کا بس یہی ایک راستہ ہے۔