لغو قسمیں کیا ہوتی ہیں؟ ان کے کیا احکام ہیں؟ یہ سب سورۃ البقرہ کی تفسیر [2-البقرة:225] میں بالتفصیل بیان کر چکے ہیں اس لیے یہاں ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں «فَالْحَمْدُ لِلَّـهِ» ۔ مقصد یہ ہے کہ روانی کلام میں انسان کے منہ سے بغیر قصد کے جو قسمیں عادتاً نکل جائیں وہ لغو قسمیں ہیں۔
امام شافعی کارحمہ اللہ یہی مذہب ہے، مذاق میں قسم کھا بیٹھنا، اللہ کی نافرمانی کے کرنے پر قسم کھا بیٹھنا، زیادتی گمان کی بنا پر قسم کھا بیٹھنا بھی اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے۔ غصے اور عضب میں، نسیان اور بھول چوک سے کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیزوں میں قسم کھا بیٹھنا مراد ہے، اس قول کی دلیل میں آیت «يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ»[5-المائدہ:87] کو پیش کیا جاتا ہے۔
بالکل صحیح بات یہ ہے کہ لغو قسموں سے مراد بغیر قصد کی قسمیں ہیں اور اس کی دلیل «وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ» [5-المائدہ:89] ہے یعنی ” جو قسمیں بالقصد اور بالعزم ہوں ان پر گرفٹ ہے اور ان پر کفارہ ہے “۔
کفارہ دس مسکینوں کا کھانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے پاس بقدر کفایت کے نہ ہو اوسط درجے کا کھانا جو عموماً گھر میں کھایا جاتا ہو وہی انہیں کھلا دینا۔ مثلاً دودھ روٹی، گھی روٹی، زیتون کا تیل روٹی۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلی ہوتی ہے بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے ہیں تو نہ وہ ہو نہ یہ ہو، تکلف بھی نہ ہو اور بخل بھی نہ ہو، سختی اور فراخی کے درمیان ہو، مثلاً گوشت روٹی ہے، سرکہ اور روٹی ہے، روٹی اور کھجوریں ہیں۔ جیسی جس کی درمیانی حثییت، اسی طرح قلت اور کثرت کے درمیان ہو۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صبح شام کا کھانا، حسن رحمة الله اور محمد بن حنفیہ رحمة الله کا قول ہے کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کر روٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے یا اپنی حیثیت کے مطابق روٹی کسی اور چیز سے کھلا دینا۔ بعض نے کہا ہے ہر مسکین کو آدھا صاع گہیوں کھجوریں وغیرہ دے دینا، امام ابوحنیفہ رحمة الله کا قول ہے کہ گہیوں تو آدھا صاع کافی ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز کا پورا صاع دیدے۔
ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوروں کا کفارے میں ایک ایک شخص کو دیا ہے اور لوگوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے۔ لیکن جس کی اتنی حثییت نہ ہو وہ آدھا صاع گہیوں کا دیدے ۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے۔ [سنن ابن ماجہ:2112،قال الشيخ الألباني:ضعیف] لیکن اس کا ایک راوی بالکل ضعیف ہے جس کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے۔ در قطنی نے اسے متروک کہا ہے اس کا نام عمر بن عبداللہ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ”ہر مسکین کو ایک مد گہیوں مع سالن کے دیدے“، امام شافعی رحمة الله بھی یہی فرماتے ہیں لیکن سالن کا ذکر نہیں ہے اور دلیل ان کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رمضان شریف کے دن میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو ایک کمتل (خاص پیمانہ) میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔ [صحیح بخاری:1936] اس میں پندرہ صاع آتے ہیں تو ہر مسکین کے لیے ایک مد ہوا۔
ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کے کفارے میں گہیوں کا ایک مد مقرر کیا ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ نضیر بن زرارہ کوفی کے بارے میں امام ابوحاتم رازی رحمة الله کا قول ہے کہ وہ مجہول ہے گو اس سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے اور امام ابن حبان رحمة الله نے اسے ثقہ کہا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»، پھر ان کے استاد عمری بھی ضعیف ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ گہیوں کا ایک مد اور باقی اناج کے دو مد دے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
(یہ یاد رہے کہ صاع انگریزی اسی روپے بھر کے سیر کے حساب سے تقریباً پونے تین سیر کا ہوتا ہے اور ایک صاع کے چار مد ہوتے ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ»، مترجم)
یا ان دس کو کپڑا پہنانا، امام شافعی رحمة الله کا قول ہے کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دیدے جس پر کپڑے کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے، مثلاً کرتہ ہے، پاجامہ ہے، تہمد ہے، پگڑی ہے یا سر پر لپیٹنے کا رومال ہے۔ پھر امام صاحب کے شاگردوں میں سے بعض تو کہتے ہیں ٹوپی بھی کافی ہے۔
بعض کہتے ہیں یہ ناکافی ہے، کافی کہنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے جب اس کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اگر کوئی وفد کسی امیر کے پاس آئے اور وہ انہیں ٹوپیاں دے تو عرب تو یہی کہیں گے کہ «قَدْ کُسُوْا» انہیں کپڑے پہنائے گئے۔“ لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ محمد بن زبیر ضعیف ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1193/4:موقوف و ضعیف]
موزے پہنانے کے بارے میں بھی اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں۔ امام مالک اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ ”کم سے کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہو جائے مرد کو دیا ہے تو اس کی اور عورت کو دیا ہے تو اس کی۔“ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”عبا ہو یا شملہ ہو۔“ مجاہد رحمة الله فرماتے ہیں ”ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک کپڑا ہو اور اس سے زیادہ جو ہو۔“
غرض کفارہ قسم میں ہر چیز سوائے جانگئے کے جائز ہے۔ بہت سے مفسرین فرماتے ہیں ایک ایک کپڑا ایک ایک مسکین کو دیدے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے ”ایسا کپڑا جو پورا کار آمد ہو مثلاً لحاف چادر وغیرہ نہ کہ کرتہ دوپٹہ وغیرہ۔“
ابن سیرین اور حسن رحمة الله علیہم دو دو کپڑے کہتے ہیں، سعید بن مسیب کہتے ہیں ”عمامہ جسے سر پر باندھے اور عبا جسے بدن پر پہنے۔“ ابوموسیٰ قسم کھاتے ہیں پھر اسے توڑتے ہیں تو دو کپڑے بحرین کے دے دیتے ہیں۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر مسکین کیلئے ایک عبا ۔ [میزان:8741:ضعیف] یہ حدیث غریب ہے، یا ایک غلام کا آزاد کرنا، امام ابوحنیفہ رحمة الله تو فرماتے ہیں کہ یہ مطلق ہے کافر ہو یا مسلمان۔
امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں ”اس کا مومن ہونا ضروری ہے کیونکہ قتل کے کفارے میں غلام کی آزادی کا حکم ہے اور وہ مقید ہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہے“، دونوں کفاروں کا سبب چاہے جداگانہ ہے لیکن وجہ ایک ہی ہے اور اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو مسلم وغیرہ میں ہے کہ معاویہ بن حکم اسلمی رضی اللہ عنہ کے ذمے ایک گردن آزاد کرنا تھی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ ایک لونڈی لیے ہوئے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سیاہ فام لونڈی سے دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں پوچھا ہم کون ہیں؟ جواب دیا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کرو یہ ایماندار عورت ہے ۔ [صحیح مسلم:537] پس ان تینوں کاموں میں سے جو بھی کر لے وہ قسم کا کفارہ ہو جائے گا اور کافی ہو گا اس پر سب کا اجماع ہے۔
قرآن کریم نے ان چیزوں کا بیان سب سے زیادہ آسان چیز سے شروع کیا ہے اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے۔ پس سب سے سہل کھانا کھلانا ہے۔ پھر اس سے قدرے بھاری کپڑا پہنانا ہے اور اس سے بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے۔ پس اس میں ادنٰی سے اعلٰی بہتر ہے۔ اب اگر کسی شخص کو ان تینون میں سے ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔
سعید بن جبیر اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ ”جس کے پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے ورنہ روزے رکھ لے“، اور بعض متاخرین سے منقول ہے کہ ”یہ اس کے لیے ہے جس کے پاس ضروریات سے فاضل چیز نہ ہو معاش وغیرہ پونجی کے بعد جو فالتو ہو اس سے کفارہ ادا کرے۔“
امام ابن جریررحمہ اللہ فرماتے ہیں ”جس کے پاس اس دن کے اپنے اور اپنے بال بچوں کے کھانے سے کچھ بچے اس میں سے کفارہ ادا کرے۔“ قسم کے توڑنے کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے واجب ہیں یا مستحب ہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ واجب نہیں، امام شافعی رحمة الله نے باب الایمان میں اسے صاف لفظوں میں کہا ہے۔
امام مالک رحمة الله کا قول بھی یہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے تو خواہ پے در پے ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے جیسے کہ رمضان کے روزوں کی قضاء کے بارے میں آیت «فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ»[2-البقرة:184] فرمایا گیا ہے وہاں بھی پے در پے کی یا علیحدہ علیحدہ کی قید نہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں ایک جگہ صراحت سے کہا ہے کہ قسم کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے چاہیئں یہی قول حنیفہ اور حنابلہ کا ہے۔
اس لیے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ ان کی قرأت آیت «فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُّتَتَابِعَاتٍ» ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہی قرأت مروی ہے، اس صورت میں اگرچہ اس کا متواتر قرأت ہونا ثابت نہ ہو۔ تاہم خبر واحد یا تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کم درجے کی تو یہ قرأت نہیں پس حکماً یہ بھی مرفوع ہے۔
ابن مردویہ کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اختیار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو اختیار پر ہے خواہ گردن آزاد کر خواہ کپڑا پہنا دے خواہ کھانا کھلا دے اور جو نہ پائے وہ پے در پے تین روزے رکھ لے ۔ [الدر المنشور للسیوطی:555/2:ضعیف]
پھر فرماتا ہے کہ ” تم جب قسم کھا کر توڑ دو تو یہ کفارہ ہے لیکن تمہیں اپنی قسموں کی حفاظت کرنی چاہیئے انہیں بغیر کفارے کے نہ چھوڑنا چاہیئے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو “۔