(آیت38) ➊ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ …: قسم ”حلف“ کو کہتے ہیں، کیونکہ یہ اس وقت اٹھائی جاتی ہے جب لوگ تقسیم ہو جائیں، کچھ لوگ بات کو صحیح کہتے ہیں کچھ غلط۔ ” جَهْدَ “ کا معنی مشقت ہے،”جَهَدَ فُلاَنٌ دَابَّتَهُ وَأَجْهَدَهَا“ جب اپنی سواری پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دے۔ ”جَهَدَ الرَّجُلُ فِيْ كَذَا“ جب آدمی کسی کام میں اپنی انتہائی کوشش صرف کر دے۔ اس کا باب ” فَتَحَ يَفْتَحُ “ ہے۔ (طنطاوی)” أَيْمَانٌ “” يَمِيْنٌ “ کی جمع ہے ”قسمیں۔“ یعنی انھوں نے زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ نہایت پکی قسم کھائی کہ جو مر جائے اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ مرنے کے بعد نہ کوئی دوسری زندگی ہے نہ حساب کتاب، اس لیے عذاب کا کیا ڈر؟ مشرکین کی عقل پر تعجب ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی اتنی تعظیم کہ اس کے نام کی پکی قسمیں کھائی جا رہی ہیں، دوسری طرف اس کی اتنی بے قدری کہ اسے اتنا بے بس اور عاجز کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پہلی دفعہ بنائی ہوئی چیز کو بھی دوبارہ نہیں بنا سکتا۔
➋ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا: ” بَلٰى “ کا لفظ کسی نفی کی نفی کے لیے ہوتا ہے، جس سے مراد اس چیز کا اثبات ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا، قیامت نہیں آئے گی۔ فرمایا، کیوں نہیں! یعنی ضرور آئے گی۔ ” وَعْدًا “”وَعَدَ“ مقدر کا مفعول مطلق ہے، برائے تاکید اور ” حَقًّا “ اس کی صفت ہے، یعنی”وَعَدَ اللّٰهُ وَعْدًا حَقًّا۔“” عَلَيْهِ “ کا لفظ اس وعدے کی مزید تاکید کے لیے ہے کہ یہ اس پر لازم ہے۔ مگر یہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے اپنے آپ پر لازم کیا ہے، ورنہ کس کی مجال ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم کرے۔ یعنی تمھارے انکار کرنے اور زور دار قسمیں کھانے سے اللہ کا پکا وعدہ ٹل نہیں سکتا، وہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا، البتہ تم ایسی واضح حقیقت کا انکار کرکے اپنی جہالت کا ثبوت دے رہے ہو۔
➌ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ: اس میں اس اقلیت کی تعریف ہے جو علم رکھتے ہیں اور جن کا ایمان ہے کہ آخرت اور حساب کتاب حق ہے اور اس اکثریت کی مذمت ہے، جو یہ ایمان نہیں رکھتے، اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ان کی تردید فرمائی۔ دیکھیے سورۂ تغابن (۷) اور سورۂ یس(۷۸)۔