(آیت36) ➊ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا …: ” الطَّاغُوْتَ “ یہ” طَغٰي يَطْغٰي طَغْوًا “(ف) سے ہے، آخر میں واؤ اور تاء مبالغہ کے لیے آتی ہیں، جیسا کہ ”ملکوت“ بہت بڑا ملک۔ ”طاغوت“ کا لفظ ”طُغْيَانٌ“ سے مشتق ہے جس کے معنی اپنی حد سے بڑھنے کے ہیں۔ یہ شیطان، معبود باطل اور ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جو گمراہی کی طرف دعوت دینے والا ہو۔ (شوکانی) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے، کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں۔ بت، شیطان اور زبردست ظالم سب ہی طاغوت ہیں۔“(موضح)
➋ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ …: چونکہ مشرکین نے دعویٰ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شرک پر راضی ہے، ورنہ وہ ہمیں شرک کیوں کرنے دیتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے لام تاکید اور ”قَدْ“ برائے تحقیق لا کر نہایت تاکید کے ساتھ ان کی تردید فرماتے ہوئے یہ بات کہی کہ ہم نے تو ہر امت میں رسول بھیجا ہی توحید کی دعوت اور شرک کی تردید کے لیے ہے۔ (دیکھیے انبیاء: ۲۵) مگر ہم نے کسی کو توحید یا شرک پر مجبور نہیں کیا، بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کرکے کفر و ایمان کے دونوں راستے بتا کر اختیار دے دیا۔ (دیکھیے دہر: ۲، ۳) اشرف الحواشی میں ہے، یعنی ہر پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے اور طاغوت سے بچتے رہنے کی دعوت دی، پھر بعض نے تو دعوت کو قبول کرلیا اور ہدایت پا گئے، مگر بعض نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر گمراہی ثبت کر دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی اس کے امر سے موافقت ضروری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ایمان کا حکم تو سب کو دیتا ہے مگر اللہ کے ارادہ کے مطابق ہدایت بعض کو ہوتی ہے۔ (شوکانی)
➌ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ …: یعنی ان کے تباہ شدہ آثار دیکھ کر بتاؤ کہ کیا رسولوں کو جھٹلانے والوں پراللہ کا عذاب نہیں آیا، لہٰذا یہ سمجھنا انتہائی حماقت ہے کہ کفر و شرک کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے ذریعے سے اپنی رضا مندی کا راستہ بتایا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے پیغمبروں کی پیروی ضروری ہے۔