(آیت21) ➊ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ: دوسرا وصف یہ کہ وہ مردہ ہیں زندہ نہیں۔ اس آیت میں ” اَمْوَاتٌ “ سے مراد وہ (نیک یا بد) مردہ لوگ ہیں جن کی مشرک لوگ عبادت کرتے تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ »”اور وہ یہ شعور نہیں رکھتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔“ اٹھائے جانے کے شعور کا لفظ جمادات (بتوں اور قبروں) پر صادق نہیں آتا، بلکہ صاحب عقل انسانوں، جنوں اور فرشتوں ہی پر صادق آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف مردہ کہنے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا: « غَيْرُ اَحْيَآءٍ »”زندہ نہیں ہیں۔“ اس سے قبر پرستوں کا واضح رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ قبروں میں دفن شدہ بزرگ مردہ نہیں زندہ ہیں اور ہم زندوں ہی کو پکارتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہو گیا کہ موت وارد ہونے کے بعد دنیوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہوتی، نہ دنیا سے ان کا کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے، پھر ان سے کسی نفع یا نقصان کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
➋ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ: یہ تیسرا وصف ہے کہ انھیں اپنے اٹھائے جانے کا وقت بھی معلوم نہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ معبود کے لیے یوم بعث کا جاننا ضروری ہے۔ (روح المعانی) اور یہ بات کہ مردے کب اٹھائے جائیں گے اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸۷)۔