ابن ابی حاتم میں ہے کہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں کہا کہ ہم خصی ہو جائیں، دنیوی لذتوں کو ترک کر دیں، بستی چھوڑ کر جنگلوں میں جا کر تارک دنیا لوگوں کی طرح زندگی یاد الٰہی میں بسر کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ باتیں معلوم ہوگئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یاد فرمایا اور ان سے پوچھا، انہوں نے اقرار کیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دیکھ نہیں رہے؟ کہ میں نفلی روزے رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ رات کو نفلی نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ میں نے نکاح بھی کر رکھے ہیں۔ سنو جو میرے طریقے پر ہو وہ تو میرا ہے اور جو میری سنتوں کو نہ لے وہ میرا نہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:12350]
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ لوگوں نے امہات المؤمنین سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی نسبت سوال کیا پھر بعض نے کہا کہ ہم گوشت نہیں کھائیں گے بعض نے کہا ہم نکاح نہیں کریں گے بعض نے کہا ہم بستر پر سوئیں گے ہی نہیں۔ جب یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ان میں سے بعض یوں کہتے ہیں حالانکہ میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، سوتا بھی ہوں اور تہجد بھی پڑھتا ہوں، گوشت بھی کھاتا ہوں اور نکاح بھی کئے ہوئے ہوں جو میری سنت سے منہ موڑے وہ میرا نہیں ۔ [صحیح بخاری:5063]
ترمذی وغیرہ میں ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ گوشت کھانے سے میری قوت باہ بڑھ جاتی ہے اس لیے میں نے اپنے اوپر گوشت کو حرام کر لیا ہے اس پر یہ آیت اتری ۔ [سنن ترمذي:3054، قال الشيخ الألباني:صحیح] امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور سند سے بھی یہ روایت مرسلاً مروی ہے اور موقوفاً بھی «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بخاری و مسلم میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں جہاد کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں تو ہم نے کہا اچھا ہوگا اگر ہم خصی ہوجائیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روکا اور مدت معینہ تک کیلئے کپڑے کے بدلے پر نکاح کرنے کی رخصت ہمیں عطا فرمائی پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی ۔ [صحیح بخاری:4615] یہ یاد رہے کہ یہ نکاح کا واقعہ متعہ کی حرمت سے پہلے کا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
معقل بن مقرن نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ”میں نے تو اپنا بستر اپنے اوپر حرام کر لیا ہے“، تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا لایا جاتا ہے تو ایک شخص اس مجمع سے الگ ہو جاتا ہے آپ رضی اللہ عنہ اسے بلاتے ہیں کہ ”آؤ ہمارے ساتھ کھا لو۔“ وہ کہتا ہے میں نے تو اس چیز کا کھانا اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”آؤ کھالو اپنی قسم کا کفارہ دے دینا“، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1187/4:صحیح]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے گھر کوئی مہمان آئے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے رات کو جب واپس گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر والوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے انتظار میں اب تک مہمان کو بھی کھانا نہیں کھلایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بہت غصہ آیا اور فرمایا ”تم نے میری وجہ سے مہمان کو بھوکا رکھا، یہ کھانا مجھ پر حرام ہے۔“ بیوی صاحبہ بھی ناراض ہو کر یہی کہہ بیٹھیں۔ مہمان نے دیکھ کر اپنے اوپر بھی حرام کرلیا اب تو عبداللہ بہت گھبرائے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب سے کہا چلو بسم اللہ کرو۔ کھا پی لیا پھر جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ کہہ سنایا پس یہ آیت اتری، لیکن اثر منقطع ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1187/4:مرسل و ضعیف]
صحیح بخاری شریف میں اس جیسا ایک قصہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے مہمانوں کے ساتھ کا ہے۔ [صحیح بخاری:602] اس سے امام شافعی رحمة الله وغیرہ علماء کا وہ قول ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص علاوہ عورتوں کے کسی اور کھانے پینے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو وہ اس پر حرام نہیں ہو جاتی اور نہ اس پر اس میں کوئی کفارہ ہے، دلیل یہ آیت اور دوسری وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی کہ جس شخص نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا تھا اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کفارے کا حکم نہیں فرمایا۔
لیکن امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال جماعت علماء کا خیال ہے کہ جو شخص کھانے پہننے وغیرہ کی کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ ہے۔ جیسے اس شخص پر جو کسی چیز کے ترک پر قسم کھالے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہی ہے اور اس کی دلیل یہ آیت «يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ»[66-التحریم:2-1] بھی ہے اور اس آیت کے بعد ہی کفارہ قسم کا ذکر بھی اسی امر کا مقتضی ہے کہ یہ حرمت قائم مقام قسم کے ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”بعض حضرات نے ترک دنیا کا، خصی ہو جانے کا اور ٹاٹ پہننے کا عزم مصمم کر لیا اس پر یہ آیتیں اتریں۔“
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، مقداد بن اسود، سالم مولی، ابی حذیفہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ترک دنیا کا ارادہ کر کے گھروں میں بیٹھ رہے باہر آنا جانا ترک کر دیا عورتوں سے علیحدگی اختیار کرلی ٹاٹ پہننے لگے اچھا کھانا اور اچھا پہننا حرام کرلیا اور بنی اسرائیل کے عابدوں کی وضع کرلی بلکہ ارادہ کرلیا کہ خصی ہو جائیں تاکہ یہ طاقت ہی سلب ہو جائے اور یہ بھی نیت کرلی کہ تمام راتیں عبادت میں اور تمام دن روزے میں گزاریں گے اس پر یہ آیت اتری یعنی یہ خلاف سنت ہے۔
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر فرمایا کہ تمہاری جانوں کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے۔ نفل روزے رکھو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دو۔ نفل نماز رات کو پڑھو اور کچھ دیر سو بھی جاؤ جو ہماری سنت کو چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔ اس پر ان بزرگوں نے فرمایا یا اللہ ہم نے سنا اور جو فرمان ہوا اس پر ہماری گردنیں خم ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:12352:مرسل و ضعیف]
یہ واقعہ بہت سے تابعین سے مرسل سندوں سے مروی ہے۔ اس کی شاہد وہ مرفوع حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی۔ «فَالْحَمْدُ لِلَّـهِ» ۔
ابن جریر میں ہے کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے وعظ کیا اور اس میں خوف اور ڈر کا ہی بیان تھا اسے سن کر دس صحابیوں نے جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون وغیرہ تھے آپس میں کہا کہ ہمیں تو کوئی بڑے بڑے طریقے عبادت کے اختیار کرنا چاہئیں نصرانیوں کو دیکھو کہ انہوں نے اپنے نفس پر بہت سی چیزیں حرام کر رکھی ہیں اس پر کسی نے گوشت اور چربی وغیرہ کھانا اپنے اوپر حرام کیا، کسی نے دن کو کھانا بھی حرام کرلیا، کسی نے رات کی نیند اپنے اوپر حرام کرلی، کسی نے عورتوں سے مباشرت حرام کرلی۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے میل جول اسی بنا پر ترک کر دیا۔ میاں بیوی اپنے صحیح تعلقات سے الگ رہنے لگے۔
ایک دن یہ بیوی صاحبہ خولہ رضی اللہ عنہا، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی تھیں انہیں پراگندہ حالت میں دیکھ کر سب نے پوچھا کہ تم نے اپنا یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے؟ نہ کنگھی نہ چوٹی کی خبر ہے نہ لباس ٹھیک ٹھاک ہے نہ صفائی اور خوبصورتی کا خیال ہے؟ کیا بات ہے؟
خولہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا مجھے اب اس بناؤ سنگار کی ضرورت ہی کیا رہی؟ اتنی مدت ہوئی جو میرے میاں مجھ سے ملے ہی نہیں نہ کبھی انہوں نے میرا کپڑا ہٹایا، یہ سن کر اور بیویاں ہنسنے لگیں اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریاف فرمایا کہ یہ ہنسی کیسی ہے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت آدمی بھیج کر عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور فرمایا یہ کیا قصہ ہے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کل واقعہ بیان کرکے کہا کہ میں نے اسے اس لیے چھوڑ رکھا ہے کہ اللہ کی عبادت دلچسپی اور فارغ البالی سے کر سکوں بلکہ میرا ارادہ ہے کہ میں خصی ہو جاؤں تاکہ عورتوں کے قابل ہی نہ رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے قسم دیتا ہوں جا اپنی بیوی سے میل کرلے اور اس سے بات چیت کر ۔ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تو میں روزے سے ہوں۔ فرمایا: جاؤ روزہ توڑ ڈالو ، چنانچہ انہوں نے حکم برداری کی، روزہ توڑ دیا اور بیوی سے بھی ملے۔
اب پھر جو سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا آئیں تو وہ اچھی ہئیت میں تھیں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ہنس کر پوچھا ”کہو اب کیا حال ہے؟“ جواب دیا کہ ”اب عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا عہد توڑ دیا ہے اور کل وہ مجھ سے ملے بھی۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں فرمایا: لوگو یہ تمہارا کیا حال ہے کہ کوئی بیویاں حرام کر رہا ہے، کوئی کھانا، کوئی سونا۔ تم نہیں دیکھتے کہ میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں اور روزے سے بھی رہتا ہوں۔ عورتوں سے ملتا بھی ہوں نکاح بھی کر رکھے ہیں۔ سنو جو مجھ سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے ، اس پر یہ آیت اتری۔
”حد سے نہ گزرو“ سے مطلب یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو خصی نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ حد سے گزر جانا ہے اور ان بزرگوں کو اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کا حکم ہوا اور فرمایا آیت «لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ»[تفسیر ابن جریر الطبری:12349]
پس «لَا تَعْتَدُوا» سے مراد یا تو یہ ہے کہ ” اللہ نے جن چیزوں کو تمہارے لیے مباح کیا ہے تم انہیں اپنے اوپر حرام کرکے تنگی نہ کرو “ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ” حلال بقدر کفایت لے لو اور اس حد سے آگے نہ نکل جاؤ “۔
جیسے فرمایا «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا»[7-الأعراف:31] ” کھاؤ پیو لیکن حد سے نہ بڑھو “۔
ایک اور آیت میں ہے «وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا»[25-الفرقان:67] ” ایمانداروں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خرچ کرنے میں اسراف اور بخیلی کے درمیان درمیان رہتے ہیں “۔
پس افراط و تفریط اللہ کے نزدیک بری بات ہے اور درمیانی روش رب کو پسند ہے۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا ” حد سے گزر جانے والوں کو اللہ ناپسند فرماتا ہے “۔
پھر فرمایا ” اللہ تعالیٰ جو حلال و طیب چیزیں تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو اور اپنے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت اور طلب رضا مندی میں رہا کرو۔ اس کی نافرمانی اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے الگ رہو۔ اسی اللہ پر تم یقین رکھتے ہو، اسی پر تمہارا ایمان ہے پس ہر امر میں اس کا لحاظ رکھو “۔