(آیت16) ➊ وَ عَلٰمٰتٍ: یعنی راستوں میں چھوٹے بڑے پہاڑ، دریاؤں کے موڑ، ریت کے ٹیلے، سبزہ زار، باغات، شہر، آبادیاں، الغرض! بے شمار علامتیں رکھیں جن کے ساتھ لوگ صحیح راستے پر رواں دواں رہتے ہیں۔
➋ وَ بِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ: ”اَلنَّجْمُ“ سے مراد یہاں جنس ہے، کوئی ایک ستارہ نہیں، یعنی رات کے وقت سمندر یا خشکی میں جہاں دوسری نشانیاں کام نہیں دیتیں، لوگ ستاروں کے ذریعے سے راستہ معلوم کرتے ہیں۔ راستوں کے علاوہ سمت، قبلہ اور اوقات کی پہچان بھی ستاروں سے حاصل ہوتی ہے۔ ” يَهْتَدُوْنَ “ میں یہ سب چیزیں داخل ہیں، (روح المعانی)” هُمْ “ کی ضمیر خشکی اور سمندر میں چلنے والے ہر مسافر کو شامل ہے، البتہ سب سے پہلے اہل مکہ اس میں داخل ہیں، کیونکہ وہ تجارت کے لیے کثرت سے سفر کرتے تھے اور ستاروں کے ذریعے سے راستے معلوم کرنے میں مشہور تھے۔ دیکھیے سورۂ قریش کی تفسیر۔ اس سے پہلے کفار سے خطاب چلا آ رہا تھا، یہاں ان کا ذکر غائب کی ضمیر سے فرمایا، یہ التفات اتنی بڑی نعمتوں کے باوجود ان کے شرک پر اظہارِ ناراضگی کے لیے ہے کہ تم لوگ خطاب کے قابل ہی نہیں، مگر اگلی آیت میں پھر خطاب ہے، کیونکہ اس میں ان کو لاجواب کرنے کے لیے ان سے براہِ راست سوال ہے۔