تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت2) يُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ: ملائکہ سے مراد جبریل علیہ السلام اور ان کے ساتھ وحی کے محافظ فرشتے ہیں۔ صرف جبریل علیہ السلام بھی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ کسی بڑی شخصیت کے لیے جمع کا لفظ بھی بول لیا جاتا ہے۔ اَلرُّوْحُ سے مراد وہ چیز جس سے زندگی حاصل ہوتی ہے، یہاں مراد وحی ہے، کیونکہ حقیقی زندگی اسی سے حاصل ہوتی ہے، دل کی زندگی بھی اور آخرت کی زندگی بھی، جیسا کہ فرمایا: « وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا» [ الشوریٰ: ۵۲ ] اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی۔ یہاں بھی رُوْحًا سے مراد وحی ہے۔ اَمْرِهٖ یعنی فرشتے اس کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔ دیکھیے سورۂ مریم (۶۴)۔

عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ: معلوم ہوا نبوت وہبی چیز ہے جو محض اللہ کی مشیت اور اس کے انتخاب سے عطا ہوتی ہے، فرمایا: « اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ » [ الحج: ۷۵ ] اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔ اور فرمایا: «‏‏‏‏ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ » [ الأنعام: ۱۲۴ ] اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ یہ اپنی ریاضت یا چلہ کشی سے حاصل ہونے والی چیز نہیں، جیسا کہ قادیانی دجال اور بعض گمراہ لوگوں کا دعویٰ ہے۔

اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ: آیت کے اس ٹکڑے میں فرشتوں کو وحی دے کر اپنے تمام رسولوں کی طرف بھیجنے کا مقصد بیان فرمایا کہ وہ اللہ کی توحید، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے شرک سے بچنا اور اسی سے ڈرتے رہنا ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ » [ الأنبیاء: ۲۵ ] اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.