(آیت98) ➊ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ: کفار کی زیادتیوں اور استہزا کی و جہ سے سینہ کی اس تنگی کا علاج بیان فرمایا کہ اگر آپ کا سینہ اس سے تنگ ہو تو آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کریں۔ تسبیح کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کو ہر عیب، نقص اور ایسی چیزوں سے پاک قرار دینا جو اس کے لائق نہیں اور حمد کا معنی اللہ کی ان تمام صفات کمال کے ساتھ تعریف کرنا جو اس کی شان کے لائق ہیں۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ تسبیح اور حمد میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال آجاتی ہیں، کیونکہ تسبیح میں تمام صفات سلبیہ (یعنی ہر عیب اور کمی سے پاک ہونا) آ گئیں اور حمد میں تمام صفات ثبوتیہ (یعنی ہر خوبی کا مالک ہونا) آ گئیں، چنانچہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر ہر مصیبت اور تنگی میں صبر اور تسبیح و حمد کا حکم دیا، جیسا کہ دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۳۰)، فرقان (۵۸)، مومن (۵۵)، طور (۴۸) اور سورۂ نصر (۳) وغیرہ۔
➋ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ: یعنی نماز پڑھنے والوں میں سے ہو جا، جس طرح قیام اور ”رَكْعَةٌ“(رکوع) سے مراد پوری نماز لی جاتی ہے، حالانکہ قیام اور ”رَكْعَةٌ“(رکوع) نماز کا جز ہیں، کل نہیں، مگر جز سے مراد کل ہے، اسی طرح یہاں سجدہ سے مراد نماز ہے، اسی لیے اس آیت پر سجدہ نہیں۔ سجدے کا ذکر خصوصاً اس لیے کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ][ مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال في الرکوع و السجود: ۴۸۲، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]”بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے تو (سجدے میں) دعا کثرت سے کیا کرو۔“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر پیش آنے والی مصیبت کا علاج اللہ کا ذکر، خصوصاً تسبیح و تحمید اور نماز ہے، ان کی برکت سے دل کو تسلی بھی ہو گی اور فکر و غم کے بادل بھی چھٹ جائیں گے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کے چکی پیسنے اور مشک میں پانی ڈھونے کی مشقت کی و جہ سے خادمہ کے لیے درخواست پر انھیں سوتے وقت تسبیحات فاطمہ کا حکم دیا اور ان تسبیحات کو خادمہ سے بہتر قرار دیا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا کہ جب آپ کو کوئی معاملہ پیش آتا تو نماز میں مصروف ہو جاتے۔ [ أبوداوٗد، التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل: ۱۳۱۹۔ مسند أحمد: ۵ /۳۸۸، ح: ۲۳۳۶۱ ]