(آیت91،90) ➊ كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِيْنَ …: ” الْمُقْتَسِمِيْنَ “ یہ ”قَسْمٌ“ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے، ”تقسیم کرنے والے۔“ قرطبی نے فرمایا: ” عِضِيْنَ “”عِضَةٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی کسی چیز کا جز یا ٹکڑا ہے۔ ”عَضَا يَعْضُوْ عَضْوًا الشَّيْءَ“ اور ”عَضّٰي يُعَضِّي الشَّيْءَ“” کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔“ ہر ٹکڑا ”عِضَةٌ“ کہلاتا ہے، اس کے آخر سے واؤ حذف کرکے تاء لائی گئی ہے۔ ” الْقُرْاٰنَ “ قرآن مجید کا نام ہے، پہلے انبیاء کی کتابوں کو بھی ”قرآن“ کہہ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی پڑھی جاتی تھیں، گویا کتاب اور قرآن کا لفظ سب کے لیے ہے۔ ہمارے قرآن کے لیے عموماً ”هٰذَا الْقُرْآنُ“ یا”ذٰلِكَ الْكِتَابُ“ وغیرہ کا اشارہ ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ خُفِّفَ عَلٰی دَاوٗدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ الْقُرْآنُ فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَوَابِّهِ فَتُسْرَجُ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّهُ ][ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: «و آتینا داود زبورا» : ۳۴۱۷ ]”داؤد علیہ السلام پر قرآن (پڑھنا) بہت ہلکا کر دیا گیا تھا، چنانچہ وہ اپنی سواریوں کے متعلق حکم دیتے تو ان پر زین ڈالی جاتی اور آپ سواریوں پر زین ڈالے جانے سے پہلے قرآن پڑھ لیتے تھے۔“
➋ ان آیات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جو امام المفسرین طبری رحمہ اللہ نے پسند فرمائی ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ” كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِيْنَ “(جیسا ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا) کا تعلق پچھلی کس آیت اور کس لفظ کے ساتھ ہے اور اس مشبہ بہ کا مشبہ کیا ہے اور ” اَنْزَلْنَا “(ہم نے اتارا) سے کیا چیز اتارنا مراد ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ” اَنْزَلْنَا “ کا مفعول محذوف ہے”اَلْعَذَابَ“ یعنی ہم نے عذاب اتارا اور ” كَمَاۤ اَنْزَلْنَا “ کا تعلق اس سے پہلی آیت: « وَ قُلْ اِنِّيْۤ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ » کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہے، اے نبی! کہہ دے کہ بے شک میں تو تمھیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں، اس قسم کے عذاب سے جیسا ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا تھا جنھوں نے (اپنی) کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ یعنی اس کے بعض حصوں کو مان لیا اور بعض کو نہ مانا۔ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طرح کے بعض کاموں کا ذکر کرکے فرمایا: « اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ »[ البقرۃ: ۸۵ ]” پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟“ اور اس کی جزا دنیا کی رسوائی اور آخرت میں سخت ترین عذاب بیان فرمائی۔ اب یہاں آپ کے زمانے کے اسرائیلیوں کو اس قسم کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے جو ان سے پہلوں پر آیا تھا، کیونکہ وہ بھی تورات کے بعض حصوں کا صاف انکار کرتے تھے، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی تاکید والی آیات۔ اور قریش کو بھی کہ کتاب اللہ کے بعض حصوں کو جھٹلانے والوں پر جس طرح عذاب آیا میں تمھیں بھی ویسے ہی عذاب سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں، کیونکہ تم نے بھی جھٹلانے کی روش اختیار کر رکھی ہے اور تم قرآن کے بعض حصوں کو ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں ہو، چنانچہ تم بھی بتوں کی مذمت کی آیات نکال دینے پر ایمان لانے کی پیش کش کرتے ہو، فرمایا: « وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ »[ القلم: ۹ ]”وہ چاہتے ہیں کاش! تو نرمی کرے تو وہ بھی نرمی کریں۔“ اسی طرح ان کا یہ مطالبہ بھی ذکر فرمایا کہ اس قرآن کے علاوہ اور قرآن لے آؤ، یا اس میں تبدیلی کر دو۔ (دیکھیے یونس: ۱۵) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” كَمَاۤ اَنْزَلْنَا “ کا تعلق آیت (۸۷) « وَ لَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ » سے ہے اور ” اَنْزَلْنَا “ کا مفعول محذوف ”اَلْكِتَابَ“ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا فرمائے، جیسے ان لوگوں پر کتاب نازل کی تھی جنھوں نے اپنی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، کسی حصے کو مان لیا کسی کو نہ مانا، جب ہم ان پر کتاب نازل کر سکتے ہیں تو آپ پر، جن کی پاکیزہ زندگی کے یہ لوگ چالیس سالہ گواہ ہیں، ہم سبع مثانی اور قرآن عظیم کیوں نازل نہیں کر سکتے! یہ تفسیر بھی اچھی ہے۔