ارشاد ہے کہ بنو اسرائیل کے کافر پرانے ملعون ہیں، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی انہی کے زمانہ میں ملعون قرار پا چکے ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور مخلوق پر ظالم تھے، توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں۔ یہ اپنے زمانہ میں بھی ایک دوسرے کو برے کاموں دیکھتے تھے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے، حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل۔
مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ بنو اسرائیل میں پہلے پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے علماء نے انہیں روکا۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں آتے تو انہوں نے انہیں الگ نہیں کیا بلکہ انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے، جس کی وجہ سے دونوں گروہوں کے دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے دل بھڑا دیئے اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے۔ اس کے بیان کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے روکو اور انہیں شریعت کی پابندی پر لاؤ ۔ [مسند احمد:391/1:منقطع]
ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھتا تو اسے روکتا، اسے کہتا کہ اللہ سے ڈر اور اس برے کام کو چھوڑ دے یہ حرام ہے۔ لیکن دوسرے روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نوالہ ہم پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا، اس وجہ سے سب میں ہی سنگدلی آ گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پوری آیت کی تلاوت کر کے فرمایا: واللہ تم پر فرض ہے کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو، برائیوں سے روکو، ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھو اور اسے تنگ کرو کہ حق پر آ جائے ۔ [سنن ابوداود:4336،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ [سنن ترمذي:3047،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تمہارے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا دے گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے گا جیسی ان پر نازل فرمائی ۔ [سنن ابوداود:4337،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اس بارے میں اور بہت سی حدیثیں ہیں کچھ سن بھی لیجئے جابر والی حدیث تو آیت «لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ»[5-المائدہ:63] ، کی تفسیر میں گزر چکی اور یا آیت «يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ»[5-المائدہ:105] کی تفسیر میں سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ اور ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں آئیں گی، ان شاءاللہ تعالیٰ۔
مسند اور ترمذی میں ہے کہ یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں بھی کرو گے لیکن وہ قبول نہیں فرمائے گا ۔ [سنن ترمذي:2129،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ماجہ میں ہے اچھائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے سے روک دی جائیں ۔ [سنن ابن ماجہ:4004،قال الشيخ الألباني:حسن]
صحیح حدیث میں ہے تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام دیکھے، اس پر فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے ۔ [صحیح مسلم:49]
مسند احمد میں ہے اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں کرتا لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے انکار نہ کریں، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے ۔ [مسند احمد:196/4:صحیح بالشواهد]
ابوداؤد میں ہے کہ جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو، ان خلاف شرع امور سے ناراض ہو (ایک اور روایت میں ہے ان کا انکار کرتا ہو) وہ مثل اس کے ہے جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے گویا ان میں حاضر ہے ۔ [سنن ابوداود:4345،قال الشيخ الألباني:حسن]
ابوداؤد میں ہے لوگوں کے عذر جب تک ختم نہ ہو جائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے ۔ [سنن ابوداود:4347،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ماجہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا: خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے سے روک نہ دے ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمانے لگے افسوس ہم نے ایسے موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی ۔ [سنن ابن ماجہ:4007،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے سامنے کہدینا ہے ۔ [سنن ابوداود:4344،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ماجہ میں ہے کہ جمرہ اولیٰ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے افضل جہاد کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ ثانیہ پر آئے تو اس نے پھر وہی سوال کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے۔ جب جمرہ عقبہ پر کنکر مار چکے اور سواری پر سوار ہونے کے ارادے سے رکاب میں پاؤں رکھے تو دریافت فرمایا کہ وہ پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں فرمایا: حق بات ظالم بادشاہ کے سامنے کہہ دینا ۔ [سنن ابن ماجہ:4012،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ماجہ میں ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو اپنی بےعزتی نہ کرنی چاہیئے لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے؟ فرمایا: خلاف شرع کوئی امر دیکھے اور کچھ نہ کہے قیامت کے دن اس سے بازپرس ہوگی کہ فلاں موقعے پر تو کیوں خاموش رہا؟ یہ جواب دے گا کہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” میں سب سے زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے خوف کھائے “۔ [سنن ابن ماجہ:4007،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ایک روایت میں ہے کہ جب اسے اللہ تلقین حجت کرے گا تو یہ کہے گا کہ تجھ سے تو میں نے امید رکھی اور لوگوں سے خوف کھا گیا۔ [سنن ابن ماجہ:4017،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تئیں ذلیل نہ کرنا چاہیئے ۔ لوگوں نے پوچھا کیسے؟ فرمایا: ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو ۔ [سنن ترمذي:2254،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے؟ فرمایا: اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہو جائے جو تم سے اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی ہم نے پوچھا وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا: کمینے آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا۔ بڑے آدمیوں میں بدکاری کا آ جانا۔ رذیلوں میں علم کا آ جانا ۔ زید کہتے ہیں رذیلوں میں علم آجانے سے مراد فاسقوں میں علم کا آ جانا ہے ۔ [سنن ابن ماجہ:4105، قال الشيخ الألباني: ضعیف] اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے آیت «لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ»[5-المائدة:105] کی تفسیر میں آئیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ۔
پھر فرماتا ہے کہ ” اکثر منافقوں کو تو دیکھے گا کہ وہ کافروں سے دوستیاں گانٹتھے ہیں ان کے اس فعل کی وجہ سے یعنی مسلمانوں سے دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے لیے برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے “۔
اس کی پاداش میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا ہے۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور قیامت کے دن کیلئے دائمی عذاب بھی ان کیلئے آگے آ رہے ہیں۔
ابن ابی حاتم میں ہے اے مسلمانو! زناکاری سے بچو، اس سے چھ برائیاں آتی ہیں، تین دنیا میں اور تین آخرت میں۔ اس سے عزت و وقار، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے۔ اس سے فقرو فاقہ آ جاتا ہے۔ اس سے عمر گھٹتی ہے اور قیامت کے دن تین برائیاں یہ ہیں اللہ کا غضب، حساب کی سختی اور برائی، اور جہنم کا خلود ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی ۔ [بیهقی فی شعب الایمان:5475:ضعیف جدا] یہ حدیث ضعیف ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرماتا ہے ” اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے تو ہرگز کافروں سے دوستیاں نہ کرتے اور چھپ چھپا کر ان سے میل ملاپ جاری نہ رکھتے۔ نہ سچے مسلمانوں سے دشمنیاں رکھتے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے خارج ہو چکے ہیں اس کی وحی اور اس کے پاک کلام کی آیتوں کے مخالف بن بیٹھے ہیں “۔