(آیت11،10)وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ …:” شِيَعِ “” شِيْعَةٌ “ کی جمع ہے، معنی ہے لوگوں کا ایسا گروہ جو ایک طریقے اور مذہب پر متفق ہو، خواہ نیک ہوں یا بد۔ یہاں یہ لفظ برے شیعہ یعنی بری جماعت کے معنی میں ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے: « اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ »[ الأنعام: ۱۵۹]”بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر لیا اور کئی گروہ بن گئے، تو کسی چیز میں بھی ان سے نہیں۔“ البتہ صافات میں نیک معنی میں ہے: « وَ اِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ »[ الصآفات: ۸۳ ]”اور بے شک اس کے گروہ میں سے ابراہیم بھی ہے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کے جھٹلانے اور استہزا سے رنجیدہ نہ ہوں، ہر زمانے میں کفار نے انبیاء کی اسی طرح ہنسی اڑائی ہے۔