(آیت43)” مُهْطِعِيْنَ “ تیز دوڑنے والے۔ ” أَهْطَعَ يُهْطِعُ “(افعال) کا معنی ہے تیز دوڑنا۔ یہ لفظ سورۂ قمر (۸) اور سورۂ معارج (۳۶) میں بھی انھی معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی قبروں سے نکل کر صور کی آواز کی طرف تیزی سے اس طرح دوڑ کر جا رہے ہوں گے کہ سر اوپر کی طرف اٹھے ہوئے اور آنکھیں کھلی، ٹکٹکی بندھی ہو گی۔” مُقْنِعِيْ “ یہ لفظ اصل میں باب افعال سے مذکر اسم فاعل ”مُقْنِعِيْنَ“ تھا، ” رُءُوْسِهِمْ “ کی طرف مضاف ہونے سے نون گر گیا، اس کا معنی ہے دائیں بائیں دیکھے بغیر اوپر کو سر اٹھانا، بعض نے اس کا معنی سر جھکانا بھی کیا ہے۔ (طنطاوی)” أَفْئِدَةٌ “” فُؤَادٌ “ کی جمع ہے، بمعنی دل۔”هَوَآءٌ“ کا معنی ہے خالی، یعنی ان کے دل گھبراہٹ کی وجہ سے سوچ سمجھ سے خالی ہوں گے۔