(آیت39) ➊ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ …: ” وَهَبَ يَهَبُ هِبَةً “ کا معنی کسی معاوضے کے بغیر عطا کر دینا ہے۔ معلوم ہوا اولاد اللہ تعالیٰ کا ہبہ ہے، یہ صرف اسباب جمع ہو جانے سے نہیں ہوتی، ورنہ ہر تندرست جوڑے کے ملنے سے اولاد ہو جاتی، بلکہ یہ محض عطائے الٰہی ہے، وہ بھی اس کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے، چاہے تو لڑکے ہی دے، چاہے لڑکیاں، چاہے دونوں ملا کر دے اور چاہے تو بے اولاد رکھے۔ (مزید دیکھیے الشوریٰ: ۵۰) رازی نے فرمایا، قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو یہ دونوں بیٹے بڑی عمر اور بڑھاپے میں عطا کیے گئے، لیکن یہ بات کہ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی معلوم نہیں ہوتی، اس کے لیے صرف اسرائیلی روایات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام ننانویں (۹۹) برس کے تھے اور اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ علیہ السلام کی عمر ایک سو بارہ (۱۱۲) برس تھی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہم اس کی تصدیق یا تکذیب نہیں کر سکتے۔
➋ لَسَمِيْعُ الدُّعَآءِ: لفظی معنی ہے ”دعا کو بہت سننے والا“ مگر مراد قبول کرنے والا ہے، جیسے کہا جاتا ہے، فلاں کی تو سنی گئی، یعنی مراد پوری ہو گئی۔