(آیت38) ➊ رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِيْ …: یعنی ہماری چھپی ہوئی دلی خواہشوں کو اور جو کچھ ہم زبان سے مانگ رہے ہیں تو سب جانتا ہے۔ یہ مانگنے کا بہترین طریقہ ہے کہ صرف تعریف پر اکتفا کیا جائے۔ ”کتاب الاغانی (۸؍۳۴۴)“ میں ہے کہ امیہ بن ابی الصلت نے عبد اللہ بن جدعان کو مخاطب کر کے کہا تھا:
أَ أَذْكُرُ حَاجَتِيْ أَمْ قَدْ كَفَانِيْ
حَيَاءُكَ اِنَّ شِيْمَتَكَ الْحَيَاءُ
إِذَا أَثْنَی عَلَيْكَ الْمَرْءُ يَومًا
كَفَاهُ مِنْ تَعَرُّضِهِ الثَّنَاءُ
”کیا میں اپنی حاجت ذکر کروں یا یقینا مجھے تیری حیا ہی کافی ہے، کیونکہ تیری عادت ہی حیا ہے، جب آدمی کسی دن تیری تعریف کر دے تو اسے ضرورت پیش کرنے کے بجائے تعریف ہی کافی ہو جاتی ہے۔“
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ”جب مخلوق کا یہ حال ہے تو خالق کا کیا حال ہو گا۔“ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَ أَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ][ ابن ماجہ، الأدب، باب فضل الحامدین: ۳۸۰۰۔ ترمذی: ۳۳۸۳، عن جابر رضی اللہ عنہ ]”سب سے بہتر ذکر لا الٰہ الا اللہ ہے اور سب سے بہتر دعا الحمد للہ ہے۔“ مقصد یہ ہے کہ پروردگارا! ہم جو مانگ رہے ہیں اور جو کچھ ہمارے دل میں ہے تو سب کچھ جانتا ہے، بے شک اللہ پر آسمان میں کوئی چیز ہو یا زمین میں، مخفی نہیں رہتی۔ سو ہماری ظاہر درخواستوں کے ساتھ دلی مرادیں بھی پوری کر دے۔ یاد رہے کہ وہ مشہور روایت جس میں ذکر ہے کہ آگ میں پھینکے جانے کے وقت بارش کے فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کو مدد کی پیش کش کی تو یہ جاننے کے بعد کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجنے کے بجائے اپنی مرضی سے آیا ہے، تو انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب اس نے کہا کہ پھر آپ خود ہی اللہ تعالیٰ سے دعاکریں تو فرمایا: [ حَسْبِيْ عَنْ سُؤَالِيْ عِلْمُهُ بِحَالِيْ ] یا فرمایا: [ عِلْمُهُ بِحَالِيْ يُغْنِيْ عَنْ سُؤَالِهِ ]”مجھے سوال کرنے کے بجائے یہی کافی ہے کہ وہ میرے حال کو جانتا ہے۔“ سو یہ محض ایک اسرائیلی روایت ہے جس کی کچھ حقیقت نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ لَّمْ يَدْعُ اللّٰهَ سُبْحَانَهُ غَضِبَ عَلَيْهِ ]”جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔“[ ابن ماجہ، الدعاء، باب فضل الدعاء: ۳۸۲۷۔ السلسلۃ الصحیحۃ: 323/6، ح: ۲۶۵۴ ] اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ »[ المؤمن: ۶۰ ]”اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو (مجھ سے دعا کرو) میں تمھاری دعا قبول کروں گا، بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبرکرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“ ایسی روایات صوفی لوگ اپنے خودساختہ وظائف و چلہ جات کو رائج کرنے اور دعا سے محروم کرنے کے لیے بیان کیا کرتے ہیں۔
➋ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اہل مکہ کے لیے صحیح عقیدے اور امن اور کھانے پینے کی چیزیں عطا کرنے کی دعا کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے ہاجر و اسماعیل علیھما السلام سے جدائی کے وقت گزرنے والی کیفیت، جو آنکھوں کے آنسوؤں یا دل کی بے قراری کی وجہ سے دونوں میاں بیوی پر گزر رہی تھی، وہ پیش کی ہے، مگر شکوے کا ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لائے، یہ حوصلہ پیغمبروں اور ان کے اہل بیت ہی کا ہوتا ہے۔