(آیت36) ➊ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ …: صنم پرستی عام ہونے اور لوگوں کے بہت جلد اس میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہیں دو ہیں، ایک تو یہ کہ ان دیکھے معبود (اللہ تعالیٰ) پر یقین رکھنے کے بجائے انسان چاہتا ہے کہ وہ ایسی چیز کی عبادت کرے جو اسے نظر آئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ ظاہر کوئی چیز نہیں، کیونکہ کائنات کی ہر چیز اپنے بنانے والے کے وجود اور توحید کی شہادت دے رہی ہے اور لطف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا یہ دعویٰ نہیں کہ یہ زمین و آسمان اور ساری کائنات میں نے بنائی ہے، اگر کوئی یہ دعویٰ کرلے تو ہر شخص اسے جھوٹا کہے گا، بلکہ خود اس کا دل اسے جھٹلائے گا کہ آسمان و زمین تو تجھ سے اور تیرے باپ دادا سے لاکھوں برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں۔ وہ اگرچہ ظاہر ہے مگر اس کی ذات سے زیادہ کوئی چیز آنکھوں سے غائب بھی نہیں، کیونکہ کسی میں اسے دیکھنے کی تاب ہی نہیں۔ [ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُوَ الظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ] اس لیے وہ پہلا تقاضا ہی ایمان بالغیب کا کرتا ہے، کوئی اس کے دیدار کا شوق رکھے یا درخواست کرے، جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کی تو وہ ناراض نہیں ہوتا بلکہ جنت میں اپنے دیدار کا وعدہ کرتا ہے، مگر کوئی ایمان لانے کے لیے دیکھنے کی شرط لگائے، جیسے بنی اسرائیل نے کہا: « لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً »[ البقرۃ: ۵۵ ]”(اے موسیٰ!) ہم تیرے لیے ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک اللہ کو صاف سامنے نہ دیکھ لیں“ تو پھر اس کی آتش غضب بھڑک اٹھتی ہے، پھر کبھی تو وہ بجلی گرا کر بھسم کر دیتا ہے اور اکثر کو اس نے مہلت دے رکھی ہے، قیامت کو انھیں ان کے مطالبے کا جواب دے گا۔ غرض یہی انسان کی بے وقوفی ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تو ایمان بالغیب کے بجائے نظر آنے والا رب گھڑ کر اس کی پوجا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا سبب محبت میں غلو بھی شامل ہو جاتا ہے، یعنی جس ہستی سے بھی اس کو حد سے زیادہ محبت ہوتی ہے، اسے نیک سمجھتا ہے یا اس کی ہیبت سے ڈرتا ہے، اس کا بت بنا کر اسے پوجنا شروع کر دیتا ہے۔ قوم نوح میں صنم پرستی کی ابتدا اسی طرح ہوئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نوح۔ بے شمار قوموں کے صنم پرستی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کہہ رہے ہیں کہ اے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا، مراد یہ ہے کہ یہ ان کی گمراہی کا باعث بن گئے، جیسے کہتے ہیں کہ سڑک لاہور لے جاتی ہے، وہ تو صرف ذریعہ ہے، جانے والا جاتا تو خود ہے۔
➋ وَ مَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: یہاں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کے لیے بھی بخشش کی دعا کی، حالانکہ ان الفاظ سے یہ بات نہیں نکلتی، بلکہ صرف یہ بات نکلتی ہے کہ ان کا معاملہ تیرے سپرد ہے، تو چاہے تو بخش دے، چاہے تو عذاب دے اور ساتھ ہی عرض کی: ”پس بے شک تو غفور و رحیم ہے۔“ بلا شبہ اس میں نہایت ادب، عجز اور سلیقے سے ایک قسم کی سفارش ہے، مگر اسے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا نہیں کہا جا سکتا، ہاں انھوں نے اپنے والد کے لیے وعدہ کی وجہ سے بخشش کی دعا کی تھی، پھر اللہ کا دشمن ثابت ہو جانے پر اس سے براء ت کا اظہار فرما دیا۔ (دیکھیے توبہ: ۱۱۴) قرآن میں ابراہیم اور عیسیٰ علیھما السلام سے منقول دعاؤں میں ہر نافرمان کا معاملہ، خواہ مشرک ہو یا عام گناہ گار، اللہ کے سپرد کیا گیا ہے، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کے ذکر کے ساتھ ایک قسم کی سفارش کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ یہ ان دونوں پیغمبروں کی بے شمار تکلیفیں اٹھانے کے باوجود حد درجے کی نرم دلی ہے، عیسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے: « اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ »[ المائدۃ: ۱۱۸ ] سورۂ مائدہ میں اس آیت کا ترجمہ اور ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمائیں۔
اس کے برعکس نوح علیہ السلام کی دعا تھی: « رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا »[ نوح: ۲۶ ]”اے میرے رب! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔“ اور موسیٰ علیہ السلام کی دعا یہ تھی: « رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ » [ یونس: ۸۸ ]”اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔“ ان دونوں نبیوں کی یہ دعائیں بھی بلاسبب نہ تھیں۔ نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ اب تمھاری قوم میں سے مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ (دیکھیے ہود: ۳۶) اور فرعونیوں نے بہت سے معجزے دیکھ کر بھی کہہ دیا تھا کہ موسیٰ! تم جو بھی معجزہ لے آؤ ہم کسی صورت تم پر ایمان لانے والے نہیں۔ (دیکھیے الاعراف: ۱۳۲) اب اگر وہ یہ دعا نہ کرتے تو کیا کرتے؟ ایسے موقع پر تو ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے والد سے صاف لاتعلق ہو گئے تھے، فرمایا: « فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ » [ التوبۃ: ۱۱۴ ]”پس جب اس کے لیے واضح ہو گیا کہ بے شک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے تعلق ہو گیا۔“