(آیت4) ➊ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ: تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے اور وہ اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان پر حجت قائم ہو سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے گئے وہ اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے، وہ پیغمبر اس قوم کا ایک فرد ہوتا تھا اور وہ انھی کی زبان بولتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت گو عام ہے اور قیامت تک کے تمام جن و انس کے لیے ہے، لیکن آپ کی قوم، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین مخاطب تھی، عربی زبان بولتی تھی، اس لیے طبعی ترتیب کے مطابق آپ نے ان کو اللہ کا پیغام عربی زبان میں پہنچایا، مقصد یہ تھا کہ پہلے یہ قوم اس پیغام کو سمجھے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانے اور سمجھانے کا ذریعہ بنے۔ اگر قرآن تمام زبانوں میں نازل کیا جاتا تو تنازع، اختلاف اور تحریف احکام کے دروازے کھل جاتے اور دعوتِ اسلام کے لیے کسی مقام پر بھی مرکزیت قائم نہ ہو سکتی۔ عربی زبان میں نازل ہونے کے بعد دوسری اقوام کا عربی سیکھنا (جو تمام زبانوں سے آسان ہے) یا اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو جانا تمام اقوام کی ہدایت کے لیے کافی ہے، جیسا کہ الحمد للہ ہو رہا ہے۔
➋ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَآءُ …: یعنی گو ہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)