(آیت27) ➊ وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا …: ایسی نشانی کیوں نہیں اتری جسے دیکھ کر ہم اسے اللہ کا رسول مان لینے پر مجبور ہو جاتے، مثلاً دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۰ تا ۹۳) میں ان کی فرمائشیں۔
➋ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَآءُ …: یعنی نشانی کے اترنے سے کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ تمھارے اب تک ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تم نے کوئی نشانی نہیں دیکھی، نشانیاں تو بے حد و حساب موجود ہیں، مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کمال حکمت والا ہے اور اپنی رحمت کا خود مالک ہے، جسے چاہے اپنی حکمت کی بنا پر اپنی رحمت و ہدایت سے محروم، یعنی گمراہ رکھے اور جسے چاہے اپنی رحمت و ہدایت سے نواز دے۔ دوسری بات یہ کہ تم اللہ کے راستے کی طرف آتے ہی نہیں، اگر تمھاری سیدھے راستے کی طرف آنے کی خواہش اور جستجو ہوتی تو تم صرف قرآن کی نشانی کو دیکھ کر راہ حق کو پا لیتے، کیونکہ یہ کتاب واضح دلائل سے لبریز ہے۔ اب اگر تم اپنی خواہشات اور شیطان ہی کے پیچھے چلتے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف لوٹ کر آنے کی رغبت ہی نہ رکھو تو تمھیں اللہ کے راستے پر چلنا کیسے نصیب ہو، وہ تو اپنی طرف آنے کے راستے پر چلنے کی توفیق انھی کو دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع رکھیں اور لوٹ کر آنا چاہیں۔