(آیت24) ➊ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ: ” سَلٰمٌ “ کا مطلب ہے کہ اب تم ہر مصیبت، رنج و غم اور پریشانی سے محفوظ ہو گئے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی مناسبت سے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ هَلْ تَدْرُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ؟ قَالُوْا اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَوَّلُ مَنْ يَّدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُوْنَ الَّذِيْنَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُوْرُ وَيُتَّقٰی بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَ يَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَ حَاجَتُهُ فِيْ صَدْرِهِ، لاَ يَسْتَطِيْعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلاَئِكَتِهِ إئْتُوْهُمْ فَحَيُّوْهُمْ فَتَقُوْلُ الْمَلاَئِكَةُ نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ وَ خَيْرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَّأْتِيَ هٰؤُلاَءِ فَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ إِنَّهُمْ كَانُوْا عِبَادًا يَعْبُدُوْنِيْ، لاَ يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا، وَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُوْرُ وَ يُتَّقَی بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَ يَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَ حَاجَتُهُ فِيْ صَدْرِهِ، لاَ يَسْتَطِيْعُ لَهَا قَضَاءً، قَالَ فَتَأْتِيْهِمُ الْمَلاَئِكَةُ عِنْدَ ذٰلِكَ، فَيَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ: «سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ» ][ مسند أحمد: 168/2، ح: ۶۵۷۸۔ ابن حبان: ۷۴۲۱۔ قال شعیب الأرنؤط و إسنادہ جید ]”کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے؟“ لوگوں نے کہا: ”اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔“ فرمایا: ”اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے فقراء اور مہاجرین داخل ہوں گے، جن کے ذریعے سے سرحدیں محفوظ کی جاتی تھیں اور ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا اور ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں باقی ہوتی تھی، وہ اسے پورا نہیں کر سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں میں سے جنھیں چاہے گا حکم دے گا کہ ان کے پاس جاؤ اور انھیں سلام کرو۔ فرشتے کہیں گے: ”ہم تیرے آسمان کے رہنے والے اور تیری مخلوق میں سے تیرے چنے ہوئے ہیں، کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں اور انھیں سلام پیش کریں۔“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”یہ میرے بندے تھے، میری بندگی کرتے تھے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے تھے، ان کے ساتھ سرحدیں محفوظ رکھی جاتی تھیں اور ان کے ذریعے سے ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا، ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس حال میں کہ اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں ہوتی، وہ اسے پورا نہیں کر سکتا تھا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چنانچہ فرشتے اس وقت ان کے پاس آئیں گے اور ہر دروازے سے ان کے پاس داخل ہوں گے (اور کہیں گے): ”سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا، سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔“
➋ بِمَا صَبَرْتُمْ …: معلوم ہوا ایمان قبول کرنے کے بعد ہر حکم بجا لانے پر ہمیشگی، ہر برائی سے اجتناب، اللہ کی ہر تقدیر پر قناعت کرتے ہوئے ہر مصیبت و راحت میں اللہ تعالیٰ پر خوش رہنا، غرض دین کی ہر بات پر استقامت کی بنیاد صبر ہی ہے اور اس کی جزا کا بھی کوئی حساب نہیں، فرمایا: « اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ »[ الزمر: ۱۰ ]”صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بغیر حساب دیا جائے گا۔“