نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے کسی حکم کو چھپایا نہیں ٭٭
اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کے پیارے خطاب سے آواز دے کر اللہ تعالیٰ حکم نے دیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کے کل احکام لوگوں کو پہنچا دو “۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا۔
صحیح بخاری میں ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے، اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ رضی اللہ عنہا نے کی ۔ یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے۔ [صحیح بخاری:4612]
بخاری و مسلم میں ہے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے کسی فرمان کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپا لیتے۔ آیت «وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىهُ»[33-الأحزاب:37] ۔ یعنی ” تو اپنے دل میں وہ چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور لوگوں سے جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے “۔ [صحیح مسلم:177]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ»[5-المائدہ:67] پڑھی اور فرمایا ”قسم اللہ کی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا۔“[ابن ابی حاتم]
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے دانے کو اگایا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے کہ کچھ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے ۔ [صحیح بخاری:3047]
صحیح بخاری شریف میں زہری رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ”اللہ کی طرف سے رسالت ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے تبلیغ ہے اور ہمارے ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے۔“[صحیح بخاری:753]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں، اس کی گواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت ہے کہ فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے بڑی مجلس جو تھی، اس میں سب نے اس کا اقرار کیا یعنی حجتہ الوداع خطبے میں، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبے میں لوگوں سے فرمایا: «أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَسْؤُولُونَ عَنِّي، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟» تم میرے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہماری گواہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کر دی اور حق رسالت ادا کر دیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟» اے اللہ! کیا میں نے تیرے تمام احکامات کو پہنچا دیا، اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ ۔ [صحیح مسلم:1218]
مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اس خطبے میں پوچھا کہ لوگو یہ کون سا دن ہے؟ سب نے کہا حرمت والا، پوچھا یہ کون سا شہر ہے ، جواب دیا، حرمت والا۔ فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ جواب ملا، حرمت والا، فرمایا: پس تمہارے مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرمت والے ہیں جیسے اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے میں حرمت ہے ۔ پھر باربار اسی کو دوہرایا۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے۔ دیکھو میرے پیچھے کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو ۔ [صحیح بخاری:1739] امام بخاری رحمة الله نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
پھر فرماتا ہے ” اگر تو نے میرے فرمان میرے بندوں تک نہ پہنچائے تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا، پھر اس کی جو سزا ہے وہ ظاہر ہے، اگر ایک آیت بھی چھپا لی تو حق رسالت ادا نہ ہو “۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:468/10]
حضرت مجاہد رحمة الله فرماتے ہیں ”جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے سب پہنچا دو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں، میں کس طرح کروں ۔ تو دوسرا جملہ اترا کہ ” اگر تو نے نہ کیا تو تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا “۔ پھر فرمایا ” تجھے لوگوں سے بچا لینا میرے ذمہ ہے۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں، بے خطر رہئیے وہ کوئی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے “۔ اس آیت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوکنے رہتے تھے، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے۔
چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار تھے انہیں نیند نہیں آ رہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آج کیا بات ہے؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی رضی اللہ عنہ آج پہرہ دیتا ، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں، فرمایا: کیسے آئے؟ جواب دیا اس لیے کہ رات بھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کروں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باآرام سوگئے، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی ۔ [صحیح بخاری:2885]
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ سنہ٢ھ کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا: جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی ۔ [سنن ترمذي:3046، قال الشيخ الألباني:صحیح]
ایک روایت میں ہے کہ ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے، جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس چچا! اب میرے ساتھ کسی کے بھیجنے کی ضرورت نہیں، میں اللہ کے بچاؤ میں آ گیا ہوں ۔ [طبرانی کبیر:11663:ضعیف] لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مکے میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے کے اور ہر ہر اسباب اور سامان سے لیس ہونے کے سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کرسکے، ابتدائے رسالت کے زمانہ میں اپنے چچا ابوطالب کی وجہ سے جو کہ قریشیوں کے سردار اور بارسوخ شخص تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہوتی رہی، ان کے دل میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ان کی بھی جان کے خواہاں ہو جاتے۔ ان کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے انصار کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی محبت پیدا کر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے ہاں چلے گئے۔
اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے ہوئے، بڑے بڑے سازو سامان لشکر لے کر چڑھ دوڑے، لیکن باربار کی ناکامیوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں، قدرت نے وہ بھی انہی پر الٹ دیں۔ ادھر وہ جادو کرتے ہیں، ادھر سورۃ معوذتین نازل ہوتی ہے اور ان کا جادو اتر جاتا ہے۔
ادھر ہزاروں جتن کرکے بکری کے شانے میں زہر ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتے ہیں، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی دھوکہ دہی سے آگاہ فرما دیتا ہے اور یہ ہاتھ کاٹتے رہ جاتے ہیں اور بھی ایسے واقعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت سارے نظر آتے ہیں۔
ابن جریر میں ہے کہ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت تلے، جو صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی عادت کے مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے چھوڑ دیتے تھے، دوپہر کے وقت قیولہ کر رہے تھے تو ایک اعرابی اچانک آنکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی، اتار لی اور میان سے باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا، اب بتا کون ہے جو تجھے بچا لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ مجھے بچائے گا ، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے لگتا ہے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے اور وہ درخت سے ٹکراتا ہے، جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:12281:ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے غزوہ کیا ذات الرقاع کھجور کے باغ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے، جو بنو نجار کے ایک شخص وارث نامی نے کہا دیکھو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرتا ہوں۔ لوگوں نے کہا کیسے؟ کہا میں کسی حیلے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لے لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے پار کردوں گا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلوار دیکھنے کو مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دے دی لیکن تلوار کے ہاتھ میں آتے ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے گر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے اور تیرے بد ارادے کے درمیان اللہ حائل ہوگیا اور یہ آیت اتری ۔ [صحیح بخاری:2913 (نزول آیت کے ذکر کے بغیر یہ روایت صحیح ہے) ]
حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے تلے آرام فرمائیں، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ایسے درخت تلے سوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی، ایک شخص آگیا اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہنے لگا، اب بتا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بچائے گا، تلوار رکھ دے اور وہ اس قدر ہیبت میں آگیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی، اور اللہ نے یہ آیت اتاری کہ «وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ»[5-المائدہ:67] ۔ [صحیح ابن حبان:1739:حسن]
مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موٹے آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اگر یہ اس کے سوا میں ہوتا تو تیرے لیے بہتر تھا ۔ ایک شخص کو صحابہ رضی اللہ عنہم پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر رہا تھا، وہ کانپنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھبرا نہیں چاہے تو ارادہ کرے لیکن اللہ اسے پورا نہیں ہونے دے گا ۔ [مسند احمد:471/3:ضعیف]
پھر فرماتا ہے ” تیرے ذمہ صرف تبلیغ ہے، ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ کافروں کو ہدایت نہیں دے گا۔ تو پہنچا دے، حساب کا لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے “۔