(آیت11) ➊ لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ …: ” مُعَقِّبٰتٌ “(باری باری ایک دوسرے کے بعد آنے والے) یہ ملائکہ کی صفت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی نگرانی و حفاظت کا جو انتظام کر رکھا ہے اس کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے ہر انسان پر کتنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، کیونکہ دو فرشتے تو نیک و بدعمل لکھنے والے دائیں اور بائیں ہیں۔ (ق: ۱۷، ۱۸) حفاظت کرنے والوں کی تعداد یہاں بیان نہیں فرمائی جو چاروں طرف سے انسان کی ہر آفت و مصیبت سے حفاظت کرتے ہیں، سوائے اس مصیبت کے جو اللہ نے اس کے لیے لکھی ہے۔ فرشتوں کی ایک اور قسم کے متعلق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وُكِّلَ بِهٖ قَرِيْنُهٗ مِنَ الْجِنِّ، وَ قَرِیْنُہُ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ قَالُوْا وَ إِيَّاكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ وَإِيَّايَ إِلاَّ أَنَّ اللّٰهَ أَعَانَنِيْ عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ فَلاَ يَأْمُرُنِيْ إِلاَّ بِخَيْرٍ ][مسلم، صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان…: ۲۸۱۴ ]”تم میں سے جو بھی شخص ہے اس کے ساتھ اس کا ایک قرین (ساتھ رہنے والا) جنوں سے مقرر کیا گیا ہے اور ایک قرین فرشتوں سے۔“ لوگوں نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! آپ کے ساتھ بھی (جن مقرر ہے)؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ہاں) میرے ساتھ بھی، مگر اللہ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے تو وہ تابع ہو گیا ہے، سو وہ مجھے خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ باری والے فرشتے صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتے ہیں، ان وقتوں میں آنے اور جانے والوں کی ملاقات ان دونوں نمازوں میں ہوتی ہے۔ [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر: ۵۵۵۔ مسلم: ۶۳۲ ] اس حقیقت کے اظہار کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔
➋ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ …: یعنی جب تک نیکی کے بجائے برائی اور اطاعت کے بجائے نافرمانی نہ کرنے لگیں، البتہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے آلِ فرعون کی مثال کے ساتھ سورۂ انفال (۵۳، ۵۴) میں بیان فرمائی۔ مزید مثال کے لیے دیکھیے سورۂ نحل (۱۱۲) اور سبا (۱۵ تا ۱۷) واضح رہے کہ یہاں قوموں کی تباہی کا قانون بیان کیا گیا ہے، افراد کا نہیں۔ کسی قوم کی اچھی یا بری حالت کا تعین اسی لحاظ سے کیا جائے گا کہ آیا اس میں اچھے لوگوں کا غلبہ ہے یا برے لوگوں کا؟ رہے افراد تو ضروری نہیں کہ ایک شخص گناہ کرے تبھی اس پر عذاب نازل ہو، بلکہ ایک بے گناہ شخص دوسروں کے گناہ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جیسا کہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! أَنَهْلِكُ وَفِيْنَا الصَّالِحُوْنَ، قَالَ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ ][ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قصۃ یأجوج و مأجوج: ۳۳۴۶ ]”اے اللہ کے رسول! کیا نیک لوگوں کے ہم میں موجود ہونے کے باوجود ہم ہلاک ہو جائیں گے؟“ فرمایا: ”ہاں! جب خباثت (گناہ) زیادہ ہو جائے۔“
➌ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا …: ہم چاہے کتنی سائنسی تدبیریں اور حفاظت کا بندوبست کر لیں، یا کسی پیر، بزرگ، بت یا جن یا فرشتے کی پناہ پکڑ لیں، اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مقابلے میں کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔