(آیت7) ➊ وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ …: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی ایک اور کمینگی کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ کفار تمام انبیاء کی آیات (معجزوں) سے بڑی آیت (بڑا معجزہ یعنی قرآن مجید) دیکھنے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ اس پر کوئی آیت (معجزہ) نازل کیوں نہیں ہوئی۔ ان کے مطالبوں کی مثال دیکھنی ہو تو دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۰ تا ۹۳) آیت یعنی نشانی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک تنزیلی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترنے والے احکام و آیات اور دوسری تکوینی یعنی جن کا مقابلہ کرنے سے ساری کائنات عاجز ہو۔ قرآن میں دونوں خوبیاں ہیں، اس میں ہدایت کی آیات بھی ہیں اور ساری دنیا کو پہلے پوری کتاب، پھر اس جیسی دس سورتیں اور پھر صرف ایک سورت جیسی سورت لانے کا چیلنج قیامت تک کے لیے ہے، جس کا جواب کافر آج تک نہیں دے سکے، کفار کی خست دیکھو پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتری۔
➋ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبشر بھی تھے اور منذر بھی، مگر یہاں آپ کی صفت صرف منذر بیان فرمائی، کیونکہ ذکر کفار کا ہے۔ ” مُنْذِرٌ “ اور ” هَادٍ “ پر تنوین تعظیم کی ہے، یعنی اللہ پر ایمان نہ لانے والوں کے لیے دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرانے والے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر قوم کے لیے ایک عظیم رہنما ہوتا ہے۔ آپ کا کام کرشمے دکھانا نہیں بلکہ آپ کی ذمہ داری لوگوں کو کفر کے برے انجام سے ڈرانا ہے، اس لیے آپ کرشمے دکھانے والے نہیں بلکہ صرف ایک عظیم ہادی، یعنی ڈرانے اور آگاہ کرنے والے ہیں۔ (” اِنَّمَاۤ “ کے ساتھ یہ حصر اضافی ہے، یعنی معجزہ دکھانے والے کے بجائے منذر ہیں، یہ نہیں کہ آپ منذر کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں) پھر قوموں کو رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ عظیم رہنما بھی ہیں، لہٰذا ان کے بے جا مطالبے سے پریشان نہ ہوں۔ مستدرک حاکم(۳؍140، ح: ۴۶۴۶) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت « اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ» کے ضمن میں فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منذر ہیں اور میں ہادی ہوں۔“ مگر یہ روایت صحیح نہیں ہے، پھر خلافت بلا فصل پر اس سے استدلال بھی غلط ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ کی طرف سے منذر ہیں اور وہی ہادی ہیں، پھر وہ لوگ جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور دین یعنی خالص کتاب و سنت کو (نہ کہ لوگوں کی رائے اور قیاس کو) دعوت و جہاد کے ذریعے آگے پہنچایا، پہنچا رہے ہیں اور پہنچاتے رہیں گے، مثلاً خلفائے اربعہ، صحابہ کرام، مجاہدین اسلام، محدثین اور عادل قاضی اور خلفاء (اللہ سب پر راضی ہو) سب آپ کے خلف صدق ہیں۔